ہفتہ ،29 جمادی الاوّل 1444،24 دسمبر2022ء

وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ عمران تحفے بیج کر پیسے سیلاب متاثرین کو دیتے تو تعریف کرتا۔ 
بات تو سو فیصد درست ہے‘ لیکن افسوس ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی کہ ہمارے رہنماءاپنے تحفے تحائف یا اثاثے بیچ کر مصیبت زدہ لوگوں کی پریشانیاں دور کرتے یا اپنی جیب سے عوام کی مدد کرتے۔ اس وقت معیشت جس بدحالی کا شکار ہے‘ ملک چلانے کیلئے پیسہ نہیں‘ بس عوام کے خون پر انحصار کیا جا رہا ہے‘ جن پر بھاری ٹیکس لگا کر انکے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کا سوچا جا رہا ہے‘ آئی ایم ایف کا سود دینے کیلئے بھی قرض لینا پڑتا ہے‘ ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں بھی قوم کو تواتر سے سنائی جا رہی ہیں‘ ان حالات کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ ملک کیسے چل رہا ہے۔ ہمارے رہنماﺅں کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے‘ اسمبلیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک سرمایہ دار بیٹھا ہے جس کی تجوریاں دولت سے ابل رہی ہیں مگر مجال ہے اس میں سے ایک دھیلا بھی عوام پر خرچ کرنے کی کسی میں ہمت ہو۔ الیکشن کا اعلان ہونے کی دیر ہے‘ ہارس ٹریڈنگ پر اربوں خرچ کر دیئے جائیں گے لیکن اپنی جیب سے سیلاب زدگان اور ملک و قوم کی حالت سدھارنے کیلئے کچھ نہیں کیا جاتا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کل ہی بیان جاری کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کو اب بھی چلینجز کا سامنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیلاب زدگان کیلئے بیرون اور اندرون ملک سے جو امداد کی رقم آئی ہے‘ وہ کہاں گئی؟ عمران خان ٹی وی پر بیٹھ کر اربوں جمع کر چکے ہیں جبکہ حکومت کو بھی خطیر رقم مل چکی ہے لیکن سیلاب متاثرین کی حالت اب بھی قابل رحم ہے۔ اگر ہمارے رہنما اپنے سرمائے کا کچھ حصہ ملک و قوم پر خرچ کرنے پر تیار ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک کی حالت نہ سدھر سکے۔مگر ایسا تو ہمارے ہاں صرف تصورات میں ہی ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم صاحب! عمران خان کی تعریف کا جواز ڈھونڈنے کے بجائے اس کارِخیر میں آگے بڑھ کر خود اپنا حصہ ڈالیں‘ یقین مانیں قوم انکی گرویدہ ہو جائیگی۔
٭....٭....٭
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری سید حسن مرتضیٰ نے کہا ہے ‘ چاہتے ہیں اسمبلیاں‘ پارلیمان مدت پور ی کرے۔ فواد کا میڈیکل کرایا جائے تو آصف زرداری کا نمک نکلے گا۔ 
حکومتی اتحادی تو دل و جان سے چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے دی جائے‘ مگر حزبِ اختلاف والوں کا کہنا ہے کہ اگر اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دی گئی تو ملک نہیں بچے گا اس لئے وہ ”الیکشن کراﺅ‘ ملک بچاﺅ“ کا نعرہ لگا کر ہرصورت حکومت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور اس سے فوری الیکشن کی تاریخ لینا چاہتے ہیں۔ اگر حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ گزشتہ 9 ماہ میں عوام کیلئے کچھ نہیں کر پائی۔ حالانکہ کچھ کرنے کیلئے نو ماہ کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ اس مدت میں تو نئی زندگی جنم لے لیتی ہے۔ رہی بات فواد چودھری کا میڈیکل کراکے زرداری صاحب کا کھایا ہوا نمک نکالنے کی تو سیکرٹری صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے نمک میں ”حلالی“ کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو بھارت ہم سے نمک حرامی نہ کرتا جس کا سو فیصد نمک ہمارے ہاں سے ہی جاتا ہے۔ وہ ہمارا نمک کھاکر بھی ہم پر ہی غراتا ہے۔ اس لئے چاہے فواد چودھری ہوں یا کوئی اور سیاست دان‘ کھیوڑہ کی پوری کان کھلا کر بھی ان سے وفاداری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ پارٹی کا نمک ہی تو کھانے والے ہیں جو ہارس ٹریڈنگ پر اپنی وفاداری بدل لیتے ہیں۔اس لئے سیاست میں اب نمک کی کوئی اہمیت نہیں رہی‘ اس کھیل میں سارا دارومدار گُر پر رہ گیا ہے۔ یہ سیاسی گر کا ہی تو کمال ہے جو آج پنجاب میں تماشا لگا ہوا ہے۔ ابھی الیکشن کا میدان بھی سجنا باقی ہے‘ آج کے شیروشکر ہوئے اتحادی ایک دوسرے کا نمک کھا رہے ہیں‘ دیکھتے ہیںیہ اس وقت بھی متحد رہتے ہیں یا اپنی اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے میدان میں اتریں گے۔ 
٭....٭....٭
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ شفاف الیکشن ہوئے تو پی ڈی ایم‘ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کا نشان مٹ جائیگا۔ 
انکے اس بیان سے تو یہی عندیہ ملتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں صرف جماعت اسلامی ہی میدان مارے گی، تب ہی تو ان تینوں بڑی پارٹیوں کے نام و نشان مٹ پائیں گے۔ پتہ نہیں ہمارے سیاسی رہنماﺅں کی طرف سے ایسے بلند بانگ دعوے کس بل بوتے پر کئے جاتے ہیں۔ چند روز قبل ایک پیپلزپارٹی کی رہنماءبھی یہ دعویٰ چکی ہیں کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو بدترین شکست دینگے۔ موصوفہ کو شاید حالیہ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج یاد نہیں رہے‘ جس میں پی ٹی آئی نے انکی پارٹی سمیت تمام پارٹیوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ سراج الحق صاحب نہ جانے کس زعم میں بڑی پارٹیوں کے نشان مٹانے کی بات کر بیٹھے ہیں۔ انہیں یاد دلاتے چلیں کہ آزاد جموں و کشمیر کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی پہلے‘ مسلم لیگ (ن) دوسرے اور پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر آئی ہے۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی صرف ایک ہی سیٹ جیت پائی جبکہ اب تک کسی پارٹی کی طرف سے اسکے نتائج پر تحفظات بھی سامنے نہیں آئے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ یہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں۔ سراج الحق صاحب کا ان شفاف نتائج کے بارے میں کیا خیال ہے۔ اگر ملک میں ہونیوالے تمام انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو جماعت اسلامی کہیں بھی مضبوطی کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آتی۔ ہمارا مشورہ ہے کہ انتخابات سے پہلے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات میں جھاڑو پھیرنے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ انتخابات دور کی بات نہیں‘ چند ماہ بعد میدان لگنے والا ہے۔ پھر دیکھ لیں گے کہ کس کا نام رہتا ہے اور کس کا نشان مٹتا ہے۔ 
٭....٭....٭
خبر ہے کہ 24 سالہ دوشیزہ بس ڈرائیور کے گانوں پر مر مٹی۔ دوشیزہ نے محبت کا اظہار خود کیا اور 52 سالہ ڈرائیور سے شادی کرکے کنڈیکٹر بن گئی۔
واہ! یہ تو میڈم نورجہاں کے پنجابی گانے کی حقیقی تصویر بن کر سامنے آگئی ہے جس میں وہ ڈرائیور سے فرمائش کرتی نظر آتی ہیں:
”مینوں رکھ لے کلینر نال
جی کردا چلاں میں تیرے نال
لمیاں روٹاں تے
بہرحال یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے جس میں کسی کے منتخب گانوں سے متاثر ہو کر اسے اپنا جیون ساتھی چن لیا۔
 اس واقعہ پر حسرت جے پوری کا مشہور گانا یاد آگیا جس کا ایک مصرع تصرف کے ساتھ کچھ یوں بنتا ہے:
تورے متوالے ”گانوں“ نے جادو کیا
تیرے ظلم و ستم‘ سر آنکھوں پر
تجھے جیون کی ڈور سے باندھ لیا ہے
 بہرحال دونوں کو نیا سفر مبارک ہو‘ اب دونوں کو یہ عہد کرنا چاہیے:
وعدہ کر لے ساجنا تیرے بنا میں نہ رہوں 
میرے بنا تو نہ رہے ہو کے جدا یہ وعدہ رہا
محبت میں کچھ بھی بعید نہیں۔ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے۔ اسی لئے شاید بہت سوںکی محبتوں کا انجام یہ ہوتا دیکھا ہے:
شروع میں ”آپ سے پھر تم ہوئے‘ پھر تو کا عنواں ہو گئے“اور کچھ عرصے بعد ”دست و گریباں“ ہو گئے ۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن