بیگم نجمہ حمید ،خواتین کے لیے رول ماڈل

Dec 24, 2022


پاکستانی خواتین نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ وہ تعلیم، ثقافت، ادب، آرٹ، سائنس، ٹیکنالوجی، دفاع اور سیاست سمیت جس میدان میں بھی آزمائی گئیں کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ قیام پاکستان سیاسی تحریک کی بدولت معرض وجود میں آیا جس میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لےکر اپنا مرکزی کردار ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم فیروز خان نون اور دیگر کئی خواتین نے برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں قربانیاں دیں۔ تحریک پاکستان کی یہی محترم خواتین سیاستدان تھیں جو بیگم نجمہ حمید کے لیے مشعل راہ تھیں اور وہ انہی لیڈروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں داخل ہوئیں اور اپنی تعمیری اور مثبت سیاست کی بدولت نہ صرف 60 کی دہائی کے نوجوان سیاسی کارکنوں میں اچھی شہرت حاصل کی بلکہ بعد میں خود ایک معروف سیاستدان بن گئیں۔
بعد ازاں تاریخ میں محترمہ بے نظیر بھٹو پوری مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ بیگم کلثوم نواز نے پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف تحریک چلائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف کو پرویز مشرف کے جبروں اور موت کے جبڑوں سے بچایا کہ پرویز مشرف انہیں ہائی جیکنگ کیس میں سزا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ جب ایک گھریلو خاتون بیگم کلثوم نواز نے طاقتور آمر کے خلاف سخت جدوجہد شروع کرنے کے لیے گھر سے باہر قدم رکھا تو راولپنڈی کی دو خواتین نے ان کا ساتھ دیا جو ہماری قومی سیاسی تاریخ کی بہادر بہنیں بیگم طاہرہ اورنگزیب اور بیگم نجمہ حمید تھیں۔ہم گواہ ہیں کہ جب شریف برادران اٹک جیل میں قید تھے تو زمینی حالات کیا تھے اور پی ایم ایل این کی مرکزی قیادت میں سے کوئی بھی بیگم کلثوم نواز کے ساتھ کھڑا ہونے کی جرات نہیں کر رہا تھا۔ یہ جماعت 1985 سے زیادہ تر حکومتی جماعت کے نام سے مشہور تھی۔ اس لیے اس جماعت سے اپنے قائد کو بچانے کے لیے کسی مضبوط اپوزیشن کی تحریک کی توقع نہیں تھی۔ لیکن بیگم کلثوم نواز , بیگم نجمہ حمید اور ان کی بہن بیگم طاہرہ اورنگزیب نے اس افسانے کو اس وقت کی حکومت کی غلط فہمی ثابت کردیا۔
ہم گواہ ہیں کہ ان 3 خواتین نے تحریک کی جو رفتار بنائی اس نے حکمرانوں کو حیران پریشان کر دیا اور آخر کار حاکم کو ہار ماننا پڑی اس سے پہلے کہ یہ تحریک ان کے لیے طوفان بن جائے۔ مسلم لیگ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ بغیر کسی طاقت اور حمایت کے تین خواتین نے آمر کے خلاف ڈٹ کر جمہوریت کی بحالی کی راہ ہموار کی ہو۔ ہمارے پاکستانیوں کی یادیں بہت مختصر ہیں ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ 21ویں صدی کے آغاز میں پاکستان آمریت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔منتخب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اٹک قلعے کی کوٹھڑیوں میں قید کے بعد انہیں ہائی جیکنگ کیس میں پھانسی دینے والی تھی لیکن تین خواتین منتخب وزیراعظم کی حمایت میں کھڑی ہوئیں اور حاکم کو ایسا جرم کرنے سے روک دیاپاکستان کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے وزیر اعظم کو ڈکٹیٹر کے ہاتھوں ستایا جا رہا تھا جبکہ آج کا” حقیقی آزادی کا چیمپیئن“ کسی کا کٹھ پتلی بن چکا تھا۔ پرویز مشرف جسے سیاسی لیڈر کے طور پر وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانے کے لیے تیار کر ر ہا تھا۔ بیگم نجمہ حمید نے مسلم لیگ کو اپنے خون سے پروان چڑھایا، آمریت کے جبر میں بھی انہوں نے لیگ کی قیادت کا بھرپور ساتھ دیا، وفاداری ان کا خاصہ اور پہچان رہی۔ انہوں نے سیاست میں اپنے لیے منفرد نام کمایا، وہ دو مرتبہ مسلم لیگ کی نمائندگی کرتے ہوئے سینیٹ کی رکن رہیں، ان کی وفات ملک و قوم کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند کرے۔ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ سیاسی میدان میں بڑے عزم اور حوصلے کے ساتھ رہتے ہوئے انہوں نے جمہوریت کی بقاء کے لیے بے پناہ جدوجہد کی۔ بیگم نجمہ حمید نے سیاست میں مثبت روایات کو فروغ دیا، اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، ایک وفادار سیاسی کارکن کی طرح مسلم لیگ اور اس کے قائدین کا ساتھ دیا، جبر و استبداد سے کبھی نہیں ڈرے، خواتین
 کے حقوق کا تحفظ کیا۔ کشمیر کاز کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کے لیے بھی بہت کام کیا۔ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر وہ عوام کی خدمت کو اپنا نصب العین بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ وہ ایک باوقار، خوبصورت، ملنسار اور خوش اخلاق خاتون تھیں، ان کی سیاسی اور سماجی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے درست کہا کہ بیگم نجمہ حمید کی آئین، جمہوریت، ملک اور پارٹی کی بالادستی کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ شہباز شریف نے انہیں پارٹی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیگم نجمہ حمید مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی قریبی اور قابل اعتماد ساتھی تھیں۔ بیگم نجمہ حمید ایک نظریاتی، اصول پسند، بہادر اور مہربان خاتون تھیں۔ملک کو ایسے سیاستدانوں کی ضرورت ہے جو اچھے کاموں میں بزرگوں کی پیروی کریں ,بردباری کا مظاہرہ کریں نہ کہ ہر وقت دوسروں پر چیختے رہیں۔ وہ نہ صرف خود کو سائیکو کیسز ثابت کر رہے ہیں بلکہ عوام کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی پریشان کر رہے ہیں۔بدقسمتی سے ہم باہمی احترام اور تعمیری طرز عمل کی سیاست کو کھو رہے ہیں۔ کردار کشی، الزام تراشی، نام بگاڑنا اور مخالف پارٹی کے لیڈروں کو گالی دینا نئے آنے والے سیاستدانوں کے لیے معمول کے معاملات ہیں۔ بیگم نجمہ حمید جیسی ہمیشہ مسکرا نے والی ، پیار سے سب کا استقبال کر نے والی اور سب کا احترام کر نے والی سیاستدانوں کی اس حالت میں بہت کمی محسوس ہوگی۔بیگم نجمہ حمید نے 60 کی دہائی میں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا جب وہ جوان تھیں اس کے بعد سے وہ مسلم لیگ کے ساتھ رہیں اور اپنی وفاداریاں کبھی نہیں بدلیں جو آج کی نوجوان خواتین سیاستدانوں کے لیے ایک نمونہ ہے۔ انہیں بیگم نجمہ حمید کے نقش قدم پر چل کر نام و شہرت اور عزت حاصل کرنی چاہیے۔

مزیدخبریں