جب سے میں نے یہ سنا اور دیکھا ہے اور دیکھ رہا ہوں کہ معاشرے میں کرپشن بے ایمانی رشوت چوری ڈکیتی افراتفری ہنگامہ آرائی اور برائیوں کا دور دورہ ہے . میرٹ کا قتل عام کیا جارہا ہے. غریبوں کو لوٹا جا رہا ہے. ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے. لوگ پریشان ,اوازار اور بیزار ہیں. نظامِ زندگی درہم برہم ہوا جا رہا ہے .مگر کسی کو بھی کسی کی کوئی پرواہ نہیں. ہر بندہ خود غرضی کے محفوظ حصار میں خود کو خوش قسمت سمجھ رہا ہے. مگر زندگی اداس ہے بازار میں چلے جاؤ تو ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے. مہنگائی نے چیزوں کو نہیں لوگوں کے ذہنوں کو مسخر کر لیا ہے. گویا کہ ہر بندہ مہنگائی کے بہتے دریا میں اپنے ہاتھ دھو رہا ہے. ادھر وہ شور مچاتا ہے کہ مہنگائی ہے.مہنگائی ہے. ادھر وہ خود مہنگائی کا باعث بھی بنا ہوا ہے. کیونکہ وہ بہت سستی ملنے والی چیز کو بھی بہت مہنگا کر کے بیچ رہاہے وہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی اس کے لئے گئے منافع کی شرح کو چیک نہ کرے. سو روپے کی چیز پر اگر کوئی دس روپے منافع لے لے تو شاید یہ ٹھیک ہو لیکن کوئی شخص اگر سو روپے کی چیز کے دو سو دس روپے لے اور ایک سو دس روپے اس کا منافع ہو .تو آپ خود کہیں کیا معاشرے میں مہنگائی نہیں پھیلے گی؟ دراصل مہنگائی اس حرص و ہوس کا نام ہے جو تاجر کے دماغ پر قبضہ کئے ہوئے ہے. اسی لیے تو زندگی اداس ہوتی چلی جا رہی ہے.کسی بھی دفتر میں کوئی بھی کام فائل کو" پہیہ" لگائے بغیر نہیں ہورہا اور سائل کو رشوت دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے اسی لئے تو زندگی اداس ہو رہی ہے. آج کے دور میں جس طرف چلے جائیں ظلم و زیادتی متحرک و تیار نظر آتی ہے. جب کہ عدل و انصاف خاموش دکھائی دیتا ہے اسی لئے تو زندگی اداس ہو رہی ہے کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں بغیر سفارش بغیر فیس بغیر رشوت آپ کی شنوائی نہیں ہوتی. آپ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں. اور یہ غصہ آپ کو اندر سے کھاتا رہتا ہے اسی لئے تو زندگی اداس ہوتی جا رہی ہے..اداسی اس بات کی بھی نہیں کہ زندگی آج زندگی کے ہر موڑ پر اداسی کے سفر پر رواں دواں ہے اداسی اس بات کی ہے کہ اس اداسی کو دور کرنے کے لیے خوشی کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا. بے حسی اور مایوسی کے اس جہان میں ہمدردی محبت خلوص نیکی سچائی عدل احسان ایثار تو کجا آج انسان سکھ کے خیال کے احساس سے بھی محروم ہو رہا ہے.شایدآج کے انسان نے اپنا خدا بدل لیا ہے اور پیسے کو اپنا خدا مان لیا ہے زندگی اس لیے بھی بہت اداس ہے.