پاکستان کی ارضی ثقافت کا نقطۂ آغاز کیاہے اوراس کی ابتداکہاں سے ہوئی؟، اس سوال کی تلاش ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی۔دراصل یہ سوال اس مملکت کے قیام کے ساتھ ہی بعض حلقوں کی طرف سے اٹھایا گیاتھا،اس کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھاکہ جس خطے میں یہ ملک بنا ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے،ارضِ پاکستان وادیِ سندھ کی اس قدیم تہذیب کی وارث ہے،جس کے مراکز کے طور پر ہڑپا اورموہنجوڈارو کا نام لیاگیا۔پاک وہندکی دریافت شدہ تہذیبوں میں سب سے زیادہ ستائش وادیِ سندھ کی تہذیب کوملی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید مدنیت کی سہولتوں سے آراستہ اس گمشدہ تہذیب کے آثار کامشاہدہ حیران کن ہے۔ زراعت،تجارت،تعمیرات،گلیاں،مذہبی مراکز، گودام، سوئمنگ پُول،اور منظم آب پاشی کانظام اس علاقے کے مکینوں کے شائستہ اورمہذب ہونے کی اہم دلیل ہے۔پھروہ کون سی گردش تھی جس نے سب کچھ تباہ برباد کردیا،اونچے اونچے بالاخانے خاک کے تودے بن گئے۔کل من علیھا فان ۔بقول منیرنیازی:
سن بستیوں کا حال جوحد سے گزرگئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستے میں مرگئیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ وادی ِسندھ کی تہذیب کو پاکستان کی ارضی تاریخ سے حذف کرنا ناانصافی ہوگی، اس موضوع پرفکری کشادگی کی راہ اختیارکرناوقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ ثقافتی اثاثہ پاک ہند ہی نہیں بلکہ پورا دنیاکی علمی وراثت ہے،اسکی حفاظت اور تشہیرہماری سماجی اور کسی حدتک معاشی ضروریات کوبھی پوراکرسکتی ہے۔ قومیں راتوں رات نہیں بن جاتیں،انھیں اپنی بقا کے لیے متوازن اور درمیانی راستے اختیارکرنا پڑتے ہیں۔پاکستان دوقومی نظریے کا ثمرہے،اس لیے یہ جغرافیے سے زیادہ تاریخیت میں آنکھ کھولتاہے،ہم نے اپنی تاریخ سندھ میں محمدبن قاسم کی آمدسے شروع کی اس لیے حکومتی سطح پرہمیشہ ان تہذیبوں کے ذکرکواپنی تاریخی قدامت کے اظہار کے طورپر تو استعمال کیالیکن اسے مکمل طورپراپنانہ سکے۔
چندسال پہلے تاریخ کی نئے سرے سے بازیافت اور سیاحت کے فروغ کے لیے اس کی ضرورت کومحسوس کیا گیا سو ہڑپا، موہنجوڈارو، مہرگڑھ اورگندھاراکی تہذیبوں کواہمیت ملی۔اسی سلسلے میں پنجاب کونسل آف دی آرٹس ساہیوال کی طرف سے تہذیبی تشخص کی تلاش وجستجوکے لیے ایک دوروزہ بین الاقوامی کاانعقاد کیاگیا۔کانفرنس میں شمولیت کے لیے ملک کے مختلف شہروں سے مندوبین آئے ہوئے تھے۔چھوٹے سے شہرمیں آرٹس کونسل نے علم وہنر کاجومیلہ سجایا،اس کاافتتاحی پروگرام ہری یوپیائی تہذیب سے متعلقہ چادر (جسے سلاری کانام دیاگیاہے)اوراہل حرفہ کی دیگر تخلیقی کاوشوں سے ہوا۔اس موقع پرہڑپاکی تہذیب کے حوالے سے معروف مصور عبدالمتین کے فن پاروں کی خوب صورت نمائش بھی ہوئی،جس کا افتتاح کمشنر ساہیوال نے کیا،افتتاحی سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹرانواراحمدنے کی،دیگراہم مقررین میں ثمن رائے ، ڈاکٹرناصر عباس نیر،ڈاکٹر عزیز ابن الحسن،ڈاکٹر روش ندیم،ڈاکٹر خالد سنجرانی، ڈاکٹر طاہرہ اقبال، ڈاکٹر وفا یزداں منش (ایران سے آن لائن) اورڈی آئی جی (جیل خانہ جات) شامل تھے۔دیگرنشستوں میںملک کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے مندوبین نے کانفرنس کے ذیلی موضوعات پراپنے گراں قدر مقالات پڑھے۔کانفرنس کے شرکا ء کو ساہیوال کی تاریخی سنٹرل جیل کادورہ بھی کروایاگیا،ان کی توجہ کامرکز جیل کا وہ سیکشن تھا جس میں معروف شاعرفیض احمدفیض کو محبوس رکھاگیاتھا۔اس سیکشن کواب فیض احمد فیض سے موسوم کردیاگیاہے،اس موقع پر فیض کی دختر منیزہ ہاشمی نے خصوصی طورپرشرکت کی۔وہ اپنے والد کی اسیری کے دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔کانفرنس کا ایک اور نادر پہلو ہڑپائی تہذیب کے موضوع پرلکھی گئی ڈاکٹر طاہرہ اقبال، پروفیسر عبدالمجید ، محمدحسن اور ڈاکٹر حنا جمشید کی کتابوں کی تعارفی تقریب تھی،مقررین نے اس تخلیقات پرسئیرحاصل گفتگو کی۔آرٹس کونسل نے کانفرنس کے انتظام وانصرام کے معاملات کو نہایت احسن طریقے سے ترتیب دیا تھا۔ مشکل اوردقیق مقالات کے بوجھل پن کوختم کرنے کے لیے ایک محفل موسیقی کا اہتمام بھی کیاگیا تھا۔ معروف گلوکار وحدت رمیض نے اپنی خوب صورت آواز سے ماحول کورنگین ورعنا بنادیا۔ ’’مایا وتی ‘‘کے نام سے بنایا گیا ڈراما جب اسٹیج پرپرفارم ہواتو اس پر بھرپور داد سے نوازاگیا۔اس ڈرامے کامرکزی خیال پروفیسر بلال باجوہ کاہے،جبکہ اسکے مکالمے ڈاکٹر حنا جمشیدکے تحریرکردہ تھے۔
شہر کے مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات نے بھی ان نشستوں میں شرکت کی۔کانفرنس کے دوسرے دن کی اختتامی نشست میں ڈاکٹر سہیل عباس خان،ڈاکٹرسیدعامرسہیل اور ڈاکٹرلیاقت علی نے اپنی تجاویزوآرا پیش کیں۔پنجاب کونسل آف دی آرٹس ساہیوال کی طرف سے منعقدکی گئی اس کانفرنس کے دوسرے دن کے آخرمیں سکالرز کو ہڑپا میوزیم کی سیر کروانے کا اہتمام کیاگیاتھا،ہڑپا میوزیم کسی زمانے میں حکومتی اداروں کی عدم توجہ کاشکار تھا،لیکن اب وہاں کے آثار کی حفاظت کے لیے مضبوط چاردیواری بنادی گئی ہے،اس کے علاوہ ایک خوب صور ت ہال بھی تعمیر کیا گیاہے جس میں مختلف مواقع پر تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔میوزیم کی سیر کے لیے آنے والوں کے لیے الیکٹرک گاڑیاں بھی موجود تھیں،اس سے پہلے اس نوعیت کی سہولتوں کا فقدان تھا۔ بوڑھے برگد پر سینکڑوں خوش الحان چڑیوں کی چہکارجاری تھی اور اس سے متصل سرسبز گھاس کے میدان میں میں ایک خوب صورت شعری نشست برپاہورہی تھی ،جس کی صدارت میجر(ر)اعظم کمال نے کی جبکہ مہمانان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر طارق ہاشمی اور سیدعون الحسن غازی موجود تھے۔ وادی ِ سندھ کی تہذیب کی بازیافت کے لیے منعقد ہونے والی یہ کانفرنس علم وادب کی دنیا میں ایک یادگار کی حیثیت رکھتی ہے۔مزید یہ کہ اس کانفرنس کے لیے میرا تحریر کردہ ایک گیت ’’ہری یو پیا ‘ ہری یو پیا‘ تیرے رنگ ہزار‘‘ خصوصی طورپرریکارڈ کیاگیا تھا۔مختلف نشستوں میںاس کے بو ل سنائے جاتے رہے۔ ملک کے دیگرثقافتی اداروں کوچاہیے کہ نورونکہت کی اس روایت کو لے کرآگے بڑھیں کہ روشنی اور خوشبو کوعام کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔