کسی مُلک کی ترقی اور قوموں کا مستقبل تعلیمی نظام سے مشروط ہوتا ہے۔ اور ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیں اس بات کا احساس بخوبی ہوجائے گا کہ اُن قوموں نے اپنے موثر تعلیمی نظام کے ذریعے کس طرح اپنی نسلوں کی معاشرتی و اخلاقی تربیت کی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں عرصہ دراز سے تعلیم کے شعبہ پر کسی بھی حکومت کی خاص توجہ نظر نہیں آتی۔شعبہ تعلیم میں دور جدید کے لحاظ سے کچھ جدت تو دیکھنے میں آئی ہے لیکن اس کا تعلق بنیادی تعلیمی حکمت عملی سے بالکل بھی نہیں۔ تعلیمی سلیبس اور پالیسیاں کسی طور بھی Ground Realities کے مدمقابل نہیں۔یوں لگتا ہے کہ طلباء نمبروں کی دوڑ میں اور حُکام اپنے ضلع کی ریٹنگ بڑھانے میںمصروف ہیں اور نظام تعلیم کو سوچی سمجھی سازش کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے۔ یکساں تعلیمی نصاب کسی حد تک اچھا قدم ہے لیکن اس پر سو فیصد عمل کروانا حکومتی اداروں کے بس کی بات نظر نہیں آ رہی۔بنیادی تعلیم کے حوالے سے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے سلیبس، پالیسی اور امتحانی نظام میں واضح فرق ہے۔ نویں جماعت کے نتائج کے بعد ہمارے تعلیمی نظام پر بہت سے سوالات اُٹھتے نظر آ ئے۔جن میں طلباء و طالبات کے سوشل میڈیا کی طرف رُحجان اور اُساتذہ کی عدم دلچسپی زیادہ موضوع بحث ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ عوامل کسی حد تک درست ہیں ۔بہتر نتائج کے لئے بہت سے گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں میں بچوں کو ٹیویشن پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بہت سی اکیڈمیز کمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو رہی ہیںاور بہت سے والدین بھی ٹیویشن رکھوا کر اپنی ذمہ داری
سے دستبردارنظر آتے ہیں ۔حیرت اس بات پر ہے کہ ایسے اساتذہ جو سکول میں اچھا نہیں پڑھا سکتے وہ اکیڈمی میں کیسے اچھا پڑھا لیتے ہیں؟ اورسچ یہ بھی ہے کہ دُوسروں کے بچوں کے مستقبل سے کھیلنے والے بہت سے سرکاری سکولوں کے اُساتذہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے بہت فکر مند ہوتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ اپنے بچوں کو اپنے اداروں میں داخل کروانا عیب سمجھتے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کرنے پر کیوں
مجبور ہیں؟ آخر وہ کیوں خود سے کم پڑھے لکھے اور کم تجربہ کار لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں؟پس پردہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو آگے بیان کی جارہی ہیں۔تعلیمی مسائل اور اساتذہ کا رویہ ایک طرف لیکن بہت سے سرکاری سکولوں کے اساتذہ اپنی تمام تر توانائی سے اپنے طلباء کو آگے بڑھانے میں کوشاں ہیں۔ ہم نے دور دراز دیہی علاقوں کے اساتذہ کو سکول میں بیٹھ کر شام تک بچوں کو بالکل فری بغیر کسی فیس کے پڑھاتے بھی دیکھا ہے اور شہر کے قابل اساتذہ کو بچوں کو ٹیویشن پڑھنے کے لئے مجبو ر کرتے بھی دیکھا ہے۔محکمہ تعلیم میں بھی ہر ادارے کی طرح ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ اس لئے تعلیم نظام کہ تباہی کا ذمہ دار صرف استاد کو ٹھہرانہ قطعی انصاف نہیں۔
تعلیمی نظام کو درپیش چند مسائل میں سے پہلا مسئلہ جو مجھے دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر سرکاری تعلیمی ادارہ اپنے طور پر امتحانی پالیسی اور سلیبس کے حوالے سے آزاد نہیںبلکہ اسے حکومت کی بنائی گئی پالیسی کو دیکھنا پڑتا ہے جبکہ ہمارے مُلک میں معاشرتی رویے یکساں نہ ہونے کی وجہ سے طلباء کا ذہنی معیار، معاشرتی معیار، معاشی معیار اور بنیادی مسائل مختلف ہیں۔ مثلا دیہی علاقوں کے طلباء اور شہری علاقوں کے طلباء ہر طرح مختلف ہیں۔اُن کے مسائل اور وسائل میں واضح فرق ہے۔ اُنھیں ایک ہی طرح سے چلانا ممکن نہیں ۔ نجی تعلیمی ادارے اسی لئے بہتر چل رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے ادارے کے طلباء کے معیار کے مطابق اپنی پالیسی خود مرتب کرتے ہیںاور وہ اس میں آزاد ہیں۔ اس کے بعد بات آتی ہے سرکاری سکولوں کے اساتذہ پر پڑھانے کے علاوہ ڈالے گئے اضافی بوجھ کی۔ جیسا کہ ہر سال محکمہ صحت میں کروڑوں روپے لگا کر آبادی کو کنٹرول کرنے کے ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں وہیں اُساتذہ پر یہ پریشر ہے کہ ہر سال کم از کم 10 فیصد زیادہ داخلہ کیا جائے ۔ اب بتائیں کہ اگلے سال یہ دس فیصد بچے کہاں سے لائے جائیں ؟ جبکہ مقامی آبادی میں پیدائش کی شرح اس سے کہیں کم ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ شاید شہری آبادی میں کم ہو لیکن دیہی آبادی میں یہ مسئلہ عام ہے ۔ اور داخلے کا ہدف پورا نہ کرنے والے اساتذہ پر ادارے کے افسران کا دبائو اُنھیں بوگس داخلے کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
دُوسری بڑا مسئلہ اور حیران کُن مسئلہ یہ ہے کہ اگر بچے سکول سے غیر حاضر ہوں تو اس کا براہ راست ذمہ دار اُستاد کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں کے لوگ فصل کے موسم میں اپنے بچوں کو اکثر چھٹیاں کرواتے ہیں تاکہ بچے گھر کے کاموں میں اُن کا ہاتھ بٹا سکیں۔ لیکن ساری محکمانہ ذمہ داری صرف استاد پر عائد کی جاتی ہے۔ یہ دبائو اساتذہ کو ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔
تیسرا مسئلہ جو خاص طور پر ایسے سکولوں کے لئے وبال جان ہے جہاں اساتذہ کی تعداد کم ہے یا اساتذہ موبائل یا ٹیب چلانا نہیں جانتے۔ یہ مسئلہ ہے روز کی بنیا پر ڈینگی سرگرمیاں۔ جی ہاں چھٹی کا دن ہو یا سکول کھُلا ہو اساتذہ کو آن لائن ڈینگی سرگرمیاں جمع کروانا پڑتی ہیں۔ اب نیٹ کی سپیڈ آئے یا نہ آئے اگر وقت پر یہ سرگرمیاں مکمل نہ ہُوئی تو ذمہ دار استاد ہوگا۔ چوتھا مسئلہ یہ بھی ہے کہ چھوٹے سکولوں کے اساتذہ اوپر والے تمام مسائل کا سامنا کر کے ڈاک بھی وقت پر جمع کروائیں اور سکول کی صفائی سُتھرائی کا بھی خیال رکھیں کیونکہ بہت بیشتر سکولوں میں کلرک اور درجہ چہارم کے ملازمین نہیں ہیں۔ اور بچوں سے کام کروانا غیر ذمہ داری اور تشدد کے ذمرے میں آتا ہے۔ تعلیمی نظام میں بہتری کے لئے ضروری ہے کہ حکام بالا اور حکومتی ذمہ داران سب سے پہلیگرائونڈ لیول پر پیش آنے والے مسائل کو سمجھنا چاہیئے اور پھر تعلیمی پالیسیاں مرتب کی جائیں۔ اسی طرح دیہی علاقوں سے اساتذہ کو بُلا کر تعلیمی سلیبس اور پالیسیوں کے
لئے مشاورت کی جائے تاکہ تعلیمی نظام کو بہتری کی طرف لایا جا سکے۔ ہر ادارے کے سربراہ کو اپنے ادارے کے لئے آزادانہ طور پر اختیارات دینے چاہییں تاکہ وہ اپنی مرضی سے ادارے کے قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھ کر تعلیمی عمل کو بہتر طریقے سے چلا سکے۔