آڈیو لیکس کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی بی، ایف آئی اے کے ڈی جیز کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا

Dec 24, 2023

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرلز کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا جبکہ تمام ٹیلی کام آپریٹرز کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کر لیا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے سردار لطیف کھوسہ اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر تحریری حکمنامہ جاری کیا ہے۔ عدالت نے حکم جاری کیا کہ ڈی جی آئی بی اور ڈی جی ایف آئی اے آڈیو لیکس کیس میں 19 فروری 2024ء کو ذاتی حیثیت میں ہائیکورٹ پیش ہوں جبکہ چیئرمین (پی ٹی اے) کو بھی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کو بریف کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکم نامے  میں کہا گیا کہ دوران سماعت ’’ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے کسی انٹیلی جنس ایجنسی کو ٹیلی فون کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا تمام شہریوں کی پرائیویسی اور حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ آڈیو لیکس سوشل میڈیا پر کس نے ریلیز کیں؟ اس بارے ایف آئی اے نے جواب کے لیے مہلت طلب کی۔ ایف آئی اے آڈیو لیکس شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیل کیساتھ رپورٹ پیش کرے ، ڈی جی ایف آئی اے پیش ہو کر بتائیں کہ فون کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کیسے ہو سکتی ہے؟ انٹر سروسز انٹیلی جنس نے وزارت دفاع کے ذریعے آڈیو لیکس پر اپنی رپورٹ جمع کرائی جس کے مطابق آئی ایس آئی کے پاس سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی معلومات کے سورس کا تعین کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں۔ انٹیلی جنس بیورو انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرے کے آڈیو لیکس کن اکاؤنٹس سے شیئر ہوئیں۔ غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کی آڈیو شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیل جمع کرائیں اور ڈی جی آئی بی بتائیں کہ پاکستان میں شہریوں کی سرویلنس کون کر سکتا ہے؟ ، یہ بھی بتائیں کہ کیا ریاست پاکستان کے پاس غیر قانونی سرویلنس سے محفوظ رہنے کی صلاحیت ہے؟ چیئرمین پی ٹی اے آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کو بریف کریں اور بتائیں کہ موبائل فون صارفین کی کالز اور ڈیٹا محفوظ بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟چیئرمین پی ٹی اے اور ممبرز پی ٹی اے رپورٹ کیساتھ اس کے درست ہونے کا بیان حلفی جمع کرائیں۔ حکمنامے کے مطابق عدالت ضروری سمجھتی ہے کہ تمام موبائل فون آپریٹرز کو بھی فریق بنا کر جواب طلب کیا جائے۔ پی ٹی اے، انٹیلی جنس ایجنسی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ اس متعلق خط و کتابت سے آگاہ کریں اور بتائیں کہ کسی بھی ریاستی اتھارٹی سے اپنے صارفین کا ڈیٹا شیئر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔

مزیدخبریں