اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ کسی کو سیاسی میدان سے بے دخل کرنے کی کوئی حکومتی پالیسی نہیں اور نگراں حکومت یا کہیں اور ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ تحریک انصاف کے سیاسی وجود کو ختم کیا جائے۔ نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کوئی انہونی چیز نہیں تھی، ایم پی او کے تحت پہلے بھی گرفتاریاں ہوئیں اور آج بھی اس کا استعمال ہو رہا ہے مجھے کوئی شرمندگی نہیں کہ میں نے ایک زمانے میں پی ٹی آئی کا دفاع کیا کیونکہ پی ٹی آئی حکومت سے امید تھی کہ وہ گورننس اور معیشت بہتر کرے گی۔ میں نے بطور پارٹی 2بار 2013 ء اور 2018ء میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ ہر پاکستانی کو حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے ووٹ دے۔ انوار الحق کاکڑ نے ایک مرتبہ پھر اپنا سابقہ مئوقف دہراتے ہوئے کہا کہ سانحہ 9مئی سے منسلک افراد کو قانون کا سامنا کرنا چاہیے، میں سمجھتا ہوں کہ سانحہ 9مئی میں ملوث افراد کو پبلک آفس ہولڈر نہیں ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشن ہی کسی امیدوار کی اہلیت اور نااہلی دیکھتا ہے لیکن اگر کسی کو انتخابی عمل سے روکا گیا ہے تو اس کی تحقیقات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو سیاسی میدان سے بے دخل کرنے کی کوئی حکومتی پالیسی نہیں، نگراں حکومت یا کہیں اور ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ تحریک انصاف کے سیاسی وجود کو ختم کیا جائے۔ ہر سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کا پورا حق ہے۔ نگران وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کہیں بھی جنگ نہیں بلکہ امن چاہتا ہے اور فلسطین میں بھی فوری امن قائم ہونا چاہیے۔ دریں اثناء نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مسیحی برادری کو کرسمس کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسیحی برادری نے پاکستان میں مختلف شعبوں بالخصوص تعلیم اور صحت کے میدان میں اہم خدمات انجام دی ہیں،پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں۔ ہندو، سکھ عیسائی اور دیگر مذاہبِ کے ماننے والوں کو برابر حقوق حاصل ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ وہ ہفتہ کو وزارتِ انسانی حقوق کے زیر اہتمام بین المذاہب ہم آہنگی اور کرسمس کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ تقریب سے نگران وفاقی وزیر انسانی حقوق خلیل جارج، رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد، سینئر پاسٹر انور فضل نے بھی خطاب کیا۔ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام انبیاء ایک نور کی لڑیاں ہیں، ان میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔ حضرت آدم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک سارے نبی ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں اور مسیحیوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسلام کے بنیادی ارکان کی طرح مسیحیوں اور اقلیتوں کے حقوق اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا بھی درس دیا گیا ہے۔ ہم مسیحیوں کو اہل کتاب کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک دور اندیش رہنما تھے۔ انہوں نے مستقبل کے حالات کا ادراک کر لیا تھا، اسی لئے 11 اگست 1947ء کو قانون ساز اسمبلی میں اپنی تقریر میں پاکستان میں تشکیل پانے والے نئے سیاسی نظام کے رہنما اصول وضع کئے۔ جس میں ہر ایک شہری کو ان کی مذہبی آزادی اور شہری وسیاسی یکساں حقوق کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم نہیں کیا جا رہا جو افسوسناک ہے ۔ ہم سب اپنے مذہب کے انتخاب میں آزاد ہیں، دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انبیاء اور ان کے رفقا نے کسی پر مذہب اپنانے میں جبر نہیں کیا تو کیسے کوئی حکومت یا ریاست ایسا کر سکتی ہے، ہم کسی کو اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر طرح کی شدت پسندی کی مذمت کرتا ہے۔