جسٹس محمد الغزالی … ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہوں جسے


 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود  سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com

شرافت' حلم ' علم وحکمت ' مودت وسیادت خوش بختی' سراپا شفقت اور اپنائیت جیسی خوبیوں میں جڑ ے جسٹس محمد الغزالی بھی جنت مکیں ہوئے۔ 19  دسمبر 2023ء کی سہ پہر وہ اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون قبرستان میں سپرد لحد کئے گئے۔ ان کی جدائی کو ہفتہ عشرہ ہوگیا مگر سماجی' عوامی ' دینی' تدریسی اور قانون گو حلقوں میں ان کا تذکرہ کم نہیں ہورہا یقینا باتیں ،یادیں اور دعائیں ان کے لیے توشہ بنی ہوئی ہیں۔ حضرت واصف علی واصف یاد آگئے!! کہتے ہیں'' موت یہ نہیں کہ روح جسم سے ناتہ توڑلے… اصل موت یہ ہے کہ یاد کرنے والا کوئی نہ ہو '' ادارہ تحیقیات اسلامی میں ان کی علمی ' تحقیقی اور فکری خدمات کا زمانہ معترف رہا، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ  احباب کے اصرار پر عرصہ تک اسی ڈیپارٹمنٹ میں خدمت وطن میں مصروف رہے۔ ان سے جب بھی کسی نے علمی رہنمائی کے لیے رجوع کیا جسٹس الغزالی ہمہ وقت دستیاب دکھائی دیئے، بلاشبہ وہ قابل فخر اور قابل رشک زندگی گزار کر گئے''  
قابل اجمیری نے شائد ان کے لیے ہی کہا تھا
جی رہا ہوں اس انداز سے میں
زندگی کو میری ضرورت ہے
 محترم  جسٹس محمد الغزالی بہت عرصہ سپریم کورٹ شریعت اپیلمنٹ پنچ کا حصہ رہے ان کے فیصلے ان کی بصیرت کی گواہی دے رہے ہیں۔ ہمارا ان سے نیاز مندی کا رشتہ قبلہ والد محترم حکیم سروسہارنپوری کی ہم عصری کے سبب ہوا ،محترم غزالی اور والد مرحوم ومغفور دیر تک علمی مباحثت میں غرق دیکھے جاتے'' افسوس اب وہ علمی دور رہا نہ مقتدر شخصیات''  اسلام آباد کی ایک تدریسی مجلس کے بعد سعودی مہمان نے چلتے ہوئے غزالی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا جناب محترم غزالی +  غزالی کیا بنتا ہے؟ آپ نے اس لمحے اسی زبان اور شرینی لہجے میں جواب مرحمت فرما دیا غزالی+ غزالی  = علم …!!
وہ نظریہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے ، پاکستان سے محبت ا?ن کا جزوایمان تھا۔ وہ کہا کرتے تھے یہ وطن ہم نے طویل جدو جہد اور بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا  ہم  نے آزادی کی ناقدری کی جس کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نکلا۔ اسلام اور پاکستان پر جب کوئی وار ہوتا  آپ میدان میں آجاتے۔ ا?ن کی شخصیت پر قائداعظم کے سیاسی افکار و بصیرت ، علامہ اقبال  کے فلسفہ کی گہری چھاپ تھی۔  اسلام اور پاکستان سے ا?ن کی وابستگی عشق کی حدوں کو چھوتی تھی، انہوں نے جس جوش و جذبے سے کام کیاقوم اسے مدتوں یاد رکھے گی۔اللہ پاک ان پر رحمتوں اور برکتوں کا نزول کرے آمین۔ ہم گزشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا اور برقی مراسلوں کے ذریعے محبان شہر کی جسٹس الغزالی سے محبت وشفقت کے مناظر دیکھ  اور پڑھ رہے ہیں۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ پورا شہر ان کا گرویدہ رہا۔ مرحوم الغزالی نے بہنوئی ملک گیر شہرت کے حامل سکالر محمد یوسف فاروقی نے بتایا کہ جسٹس صاحب اپنے والد مرحوم حافظ محمد احمد تھانوی کی طرح  بڑی معتبر علمی شخصیت تھے انہوں نے راجہ بازار میں مولانا غلام  اللہ کی مدرسے سے درس نظامی کیا۔ اسلامی یونیورسٹی بہاولپور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ان کا مقالہ ( تھیسس) حضرت شاہ ولی اللہ کے افکار کے نئے پہلووں پر تھا۔  یہ مقالہ آج بھی  اس عہد کا مثالی اور قابل رشک تحقیقی دستاویز ہے۔ نامور علمی شخصیت ڈاکٹر محمود احمد غازی کے بھائی (  جسٹس الغزالی) نے عربی اور انگریزی میں بے مثال ریسرچ پیپرز چھوڑے۔ یہ تحقیق نئی نسل کے لیے سرمایہ کا درجہ رکھتی ہے  اسلامی نظریاتی کونسل  میں انکی خدمات کو آج بھی سراہا جا رہا ہے۔   جسٹس صاحب کی ساری زندگی فروغ علم، تحقیق اور اصلاح کے گرد گھومتی رہی اور ان ہی شب روز میں وہ رخصت ہوئے۔ بااصول تھے، لوگوں کے لیے خیرخواہ، ملک وقوم کے مخلص اور ضرورت مندوں کے ترجمان رہے۔ آج کی معاشرتی۔ عوامی، تدریسی اور درویشانہ زندگی میں ایسے لوگ کہاں ہیں؟

ای پیپر دی نیشن