انتخابی میدان میں اترنے کیلئے پی ٹی آئی کو آزمائشوں کا سامنا

پاکستان الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن خلاف ضابطہ قرار دیکر کالعدم کر دیئے اور اس کا بلّے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔ جمعۃ المبارک کے روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بنچ نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف دائر گیارہ درخواستوں پر متفقہ فیصلہ صادر کیا اور قرار دیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں ناکام رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے پولیٹکل فنانس ونگ نے بھی اعتراضات اٹھائے تھے جبکہ ان انتخابات کیخلاف دائر درخواستوں جن میں پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی درخواست بھی شامل تھی‘ یہ موقف اختیار کیا گیا کہ پارٹی انتخابات آئین کے تحت نہیں بلکہ خفیہ طور پر کرائے گئے اور کسی بھی ممبر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پی ٹی آئی کے آفس میں کاغذات نامزدگی بھی موجود نہیں تھے جبکہ انٹرا پارٹی الیکشن کی رسمی کارروائی محض بلّے کا انتخابی نشان لینے کیلئے کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت بلے کا انتخابی نشان نہیں ملے گا کیونکہ اس نے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق 23 نومبر 2023ء کے الیکشن کمیشن کیے فیصلے پر عمل نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی بنیاد پر انٹرا پارٹی الیکشن میں پی ٹی آئی کے منتخب ظاہر کئے گئے صدر بیرسٹر گوہر بھی اب پی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں رہے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار اب آزاد حیثیت میں 8 فروری کے انتخابات میں حصہ لے پائیں گے اور ہر امیدوار کو الگ الگ انتخابی نشان الاٹ ہو گا۔ اس حوالے سے بیرسٹر گوہر نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہمارے پاس پلان بی بھی موجود ہے۔ ہم انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرینگے۔ انکے بقول پی ٹی آئی سے بلّے کا انتخابی نشان اس لئے چھینا گیا ہے کہ ہمارے ووٹر اور امیدوار کنفیوز رہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی قائد عمران خان کی نااہلیت کی سزا معطل کرنے کی درخواست مسترد ہونے کے باعث وہ انتخابات میں حصہ لینے کے نااہل بھی ہو چکے ہیں جبکہ سائفر کیس میں انکی درخواست ضمانت منظور ہونے کے باوجود ان کی جیل سے رہائی کے امکانات معدوم ہیں چنانچہ پی ٹی آئی کو پارٹی قائد کے بغیر ہی انتخابی میدان میں اترنا پڑیگا جبکہ ان امیدواروں کو بھی کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور متعدد امیدوار کاغذات نامزدگی داخل کرانے کیلئے جاتے وقت زیرحراست بھی آئے جبکہ انکے تجویز اور تائید کنندگان کو بھی حراست میں لینے کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔ 
پی ٹی آئی کو اس وقت جس کٹھن صورتحال کا سامنا ہے وہ اسکی ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکرائو اور بلیم گیم کی سیاست کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوئی ہے۔ بالخصوص افواج پاکستان کے اداروں‘ انکی عمارات اور تنصیبات پر حملہ آور ہو کر قومی املاک کونقصان پہنچانے کے 9 مئی کے واقعات نے پی ٹی آئی کے متعلقین پر قانون کی سختی سے عملداری کا راستہ نکالا اور پی ٹی آئی قائد عمران خان خود بھی اسکی زد میں آئے۔ اس وقت قانون کی عملداری کے تحت ہی پی ٹی آئی عملاً دیوار کے ساتھ لگی نظر آرہی ہے اور اسکی قیادت کی جانب سے اسے انتخابی میدان میں لیول پلینگ فیلڈ دینے کا تواتر کے ساتھ تقاضا کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ روز لیول پلینگ فیلڈ کے لئے پی ٹی آئی کی دائر کردہ درخواست نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کا لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام بظاہر درست ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے پراسس میں روا رکھے جانے والے سلوک کا بھی نوٹس لیا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی وہ ان معاملات پر ایکشن لے کہ ایک سیاسی جماعت کو الگ سے کیوں ڈیل کیا جارہا ہے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہی لیول پلینگ فیلڈ ہے۔ 
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ آئین نے شہریوں کو اجتماع کرنے اور ایک سیاسی پارٹی تشکیل دیکر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اختیار دیا ہے تو آئین ہی کے تحت ان سیاسی سرگرمیوں اور اظہار رائے کی آزادی کو بعض معاملات کے ساتھ مشروط بھی کیا گیا ہے۔ آئین کی دفعہ 19 میں اس حوالے سے دوٹوک پیرامیٹرز متعین کئے گئے ہیں کہ افواج پاکستان اور عدلیہ سمیت کسی ریاستی ادارے کیخلاف منفی پراپیگنڈہ نہیں کیا جائیگا اور اسی طرح قیام پاکستان کے مقاصد اور بطور ریاست پاکستان کیخلاف بھی کسی قسم کا منفی پراپیگنڈہ آزادی اظہار کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور شریعت کے معاملات پر بھی منفی پراپیگنڈہ قانون کی زد میں آتا اور مستوجب سزا ٹھہرتا ہے۔ پی ٹی آئی قائد نے بدقسمتی سے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر تعمیری کے بجائے تخریبی سیاست کا راستہ اختیار کیا اور اپنے تئیں یہ تصور کرلیا کہ عوامی مقبولیت کے زور پر وہ ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ بھی ٹکرا سکتے ہیں۔ ان کا یہ زعم بہرحال 9 مئی کے واقعات کے نتیجہ میں خود ہی ٹوٹ گیا اور آج وہ اور انکی پارٹی قومی سیاست میں اپنے لئے کوئی راستہ نکالنے کی پوزیشن میں بھی نظر نہیں آرہی۔ اس پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان اسکے انتخابی نشان بلے کی واپسی کے باعث اٹھانا پڑے گا کیونکہ اس انتخابی نشان کے بغیر اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنے اپنے انتخابی نشان پر انتخاب لڑتے ہوئے اس پارٹی کے امیدوار اور ووٹرز شش و پنج میں ہی پڑے رہیں گے جس سے پی ٹی آئی کے ووٹوں کا تناسب گزشتہ انتخابات کی نسبت کم بھی ہو سکتا ہے جبکہ اس وقت پی ٹی آئی کیلئے تنظیمی سطح پر یہ مشکل صورتحال بھی پیدا ہو چکی ہے کہ اسے انتخابی میدان میں اور پارٹی کے تنظیمی معاملات میں لیڈ کون کرے گا۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی قائد کی سیاسی حکمت عملی پر یہی تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ
 ’’اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردہ تست‘‘
اسکے باوجود پی ٹی آئی کا انتخابی میدان خالی نہ چھوڑنے کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ سیاست میں اونچ نیچ کے مراحل تو ہر جماعت کیلئے آتے ہی رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے پر شکوہ سنج رہی مگر انہوں نے بھی تمام تر سختیوں کے باوجود انتخابی میدان میں ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا جس کا پھل انہیں آج ملتا نظر آرہا ہے۔ اختلاف رائے کی سیاست یقیناً جمہوریت کا حسن ہے جس سے سسٹم کی اصلاح کے مواقع بھی نکلتے ہیں اور جمہوریت کا تسلسل قائم رہنے سے اسے ڈی ٹریک کرنے کی کوئی سازش بھی پنپ نہیں سکتی۔ آج پی ٹی آئی کو جن مشکل حالات کا سامنا ہے‘ ان سے عہدہ براء ہونے کے لئے اسے انتخابی سیاسی میدان بہرصورت خالی نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ اس پر ہی اسکے سیاسی مستقبل کا دارومدار ہے۔

ای پیپر دی نیشن