ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران مذید ایک کروڑ 25 لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے جا چکے ھیں اور ملک میں غربت کی شرح 39.4 فیصد ھے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف یعنی ایس جی ڈی گولز حاصل کرنے میں بھی پاکستان 128 ویں نمبر پر ھے۔
آئی ایم ایف نے بھی پاکستان میں مالی سال 2023/24 کے دوران بے روزگاری کی شرح میں 8.5 فیصد تک اضافے کا امکان ظاہر کیا ھے ، اس شرح کے مطابق پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد 56 لاکھ تک پہنچ جائے گی ، جبکہ گزشتہ سال قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اندر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک تحقیق کے مطابق اعلی تعلیم یافتہ 31 فیصد نوجوان بھی بے روزگاری کا شکار ہیں۔
یورپین ممالک میں تو حکومتیں اپنے شہریوں کو روزگار فراھم کرنے کے متعدد کامیاب اقدامات کرتی ھیں اور روزگار سے محروم رہ جانے والوں کو بیروزگاری الاونس تک دیا جاتا ھے۔ ھمارے ہمسایہ ملک چین میں عوام کو حکومت کی طرف سے روزگار مہیا کرنے کا ایک بہترین رول ماڈل موجود ھے ، لیکن پاکستان میں عوام کو روزگار فراھم کرنا تو درکنار ؛ غربت کنٹرول کرنے کا بھی کوئی موثر اقدام کہیں نظر نہیں آتا بلکہ اًلٹا ٹیکس در ٹیکس اور مہنگی توانائی کا نظام غریب کو غریب تر کرتا چلا جا رہا ھے۔
درحقیقت پاکستان میں بے روزگاری اور غربت کی بڑی وجہ ہی ، وسائل مہیا کئے بغیر بے تحاشا حکومتی ٹیکس اور جان لیوا مہنگائی ھے، جس کے باعث متوسط تو کیا مڈل کلاس طبقے کی آمدن کا سو فیصد ، ناکافی خوراک پر ہی خرچ ہو جاتا ھے۔ لوگ تعلیم ،صحت اور متوازن خوراک ، لباس تک سے محروم ھوتے چلے جا رھے ھیں۔
پاکستان کے اندر اگر عوامی ریلیف کا حکومتی سطح پر کوئی اقدام ھے تو وہ پندرہ سال قبل آصف علی زرداری کا 2008ء میں قائم کردہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ھے جس کے موجودہ چیرمین ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈائریکٹر جنرل نوید اکبر ہیں۔ یہ پروگرام پاکستان کے تمام صوبوں بشمول آزاد جموں کشمیر میں بھی کام کرتا ھے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملک بھر میں 9 سو ملین ڈالر کے سالانہ بجٹ سے 93 لاکھ خواتین کو 35 ہزار سالانہ تک کی مجموعی مالی سپورٹ فراھم کی جاتی ھے اور انہی خواتین کے زیر تعلیم 90 لاکھ بچوں کو تعلیمی اخراجات الگ سے فراھم کئے جا رہے ہیں۔ اس پروگرام کے اندر حاملہ خواتین ، زچہ بچہ کی صحت و خوراک اور خواجہ سراوں کے لیے بھی الگ وظائف موجود ھیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مالی سپورٹ لینے والی 93 لاکھ پاکستانی خواتین میں سے 40 لاکھ صرف پنجاب کے اندر موجود ھیں جو زیادہ تر وسطی پنجاب اور ساوتھ پنجاب سے ھیں۔ یعنی پاکستان میں صوبہ پنجاب سب سے زیادہ غربت اور بے روزگاری کا شکار ھے ، جس کا ثبوت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا خواتین کو مالی امداد فراھم کرنے کا سروے سسٹم ھے ، جو نیشنل سوشل اکنامک رجسٹری کے طریقہ کار کے مطابق کام کرتے ھوئے غربت کے پیمانے مقرر کرتا ھے جس میں غربت کی زیرو سے 100 تک سکورنگ کی گئی ھے۔ جو خواتین غربت کی 32 سکورنگ سے نیچے ھوں انہیں یہ امداد فراھم کی جاتی ھے جن کا معیار زندگی غربت کے 32 سکور سے اوپر ھو وہ یہ امداد لینے کی اھل نہیں ھوتیں ، یعنی جن کے گھر اپنے ھوں سواری ھو روزگار ھو گھر میں ٹی و ی فریج ھو بجلی گیس موبائلز کا بل زیادہ آتا ھو وہ یہ سروے کرا کے اپنا اور دوسروں کا وقت برباد مت کریں وہ غربت کی لکیر سے اًوپر ہیں اور یہ امداد لینے کی اھل نہیں ہیں۔ مالی امداد لینے والی اور رہ جانے والی خواتین کا بھی دو سال بعد دوبارہ سروے ھوتا ھے۔
غربت کی سکورنگ چیک کرنے کے اس ڈائنامک رجسٹری سروے کے پیمانے میں نادرہ ، بنک ، موبائل فونز اور ریونیو ریکارڈ ڈیٹا بھی چیک کیا جاتا ھے۔ غلطی سے کسی نے ارجنٹ فیس دیکر شناختی کارڈ یا ب فارم بنوا لیا ھو تو وہ خاتون غربت کی لکیر سے باہر تصور کی جاتی ھے ، حتی کہ کسی غریب کو کسی صاحب حثیت نے اپنے خرچے پر حج یا عمرہ کرا دیا ہو تو پاسپورٹ بن جانے کی وجہ سے بھی اسے غربت کی لکیر سے باہر کر دیا جاتا ھے ، کسی کے موبائل اکاونٹ میں کسی اور نے مالی امداد بھیج دی ہو تو وہ بھی غربت کی لکیر سے باہر ہو جاتا ہے۔
محکمہ کے موجودہ سروے سسٹم کی چھلنی سے نکلنے کے بعد اب 93 لاکھ خواتین میں سے کئی سال سے امداد لینے والی چالیس پچاس لاکھ خواتین کا غربت کی لکیر سے نکل جانے کا امکان ھے اور ان کی جگہ نئی خواتین کو بھی اس مالی امداد سے مستفید ھونے کا موقع مل جائے گا جس میں بڑا عمل دخل ڈیٹا انٹری آپریٹر کی پسند نا پسند پر بھی ھو گا کہ کس کو غربت کی لکیر سے اوپر دکھاتا ھے کسے نیچے لاتا ھے۔
970 ملین ڈالر کے بڑے بجٹ کے ساتھ کام کر رہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے متعلق ادارے کا پندرہ سالوں سے اس ڈیجیٹل دنیا میں بھی کوئی موثر میکنزم نہیں بنایا جا سکا۔ 93 لاکھ خواتین کو مالی سپورٹ دینے والا یہ ادارہ ان خواتین سمیت دیگر کروڑوں خواتین کے لیے بھی روزانہ کی بنیاد پر مسائلستان بن چکا ھے۔ پہلے اس کے گھر گھر سروے دو سے پانچ سال بعد ہوتے تھے اور منی آرڈر سے رقوم پہنچائی جاتی تھیں پھر بے نظیر اے ٹی ایم کارڈ بھی فلاپ ھوئے۔ اب نئے گھرانوں کے سروے روزانہ کی بنیاد پر ان کے تحصیل اور ضلعی دفاتر میں کئے جاتے ھیں ، جہاں روزانہ صبح سات بجے سے شام پانچ بجے تک افراتفری مچی ہوتی ہے۔ ہر تحصیل کی سطح پر کم از کم دس لاکھ کی آبادی کے لیے ایک ہی دفتر ھونے کے باعث دور دراز سے روزانہ آنے والی سینکڑوں خواتین کے ساتھ ان کے کمسن بچے اور ساتھ آنے والے مرد حضرات کی تعداد ہر دفتر کے باہر بارہ سے پندرہ سو کا ہجوم بن جاتی ھے۔ ایک دفتر میں ایک دن میں 250 خواتین سے زائد کا سروے نہیں ہو پاتا جن میں سے پچاس ہی بمشکل کلئیر ہوتی ہیں باقی ریجکٹ ہو جاتی ہیں ، باری نہ آنے والی اگلے دن صبح سے شام تک دوبارہ موجود ہوتی ہیں جن میں مذید اضافہ بھی ہوتا چلا جاتا ھے۔ اب پانچ چھ مرلے کی دفتری عمارت میں نہ سینکڑوں خواتین اندر جا سکتی ہیں اور نہ ہی دس گھنٹے تک باھر ان کے بیٹھنے کی کوئی جگہ ہوتی ہے نہ پانی یا واش روم کا کوئی انتظام ، اس پر دسمبر کی جان لیوا ٹھنڈ سموگ میں کھلے آسمان تلے کمسن بچوں اور بوڑھی خواتین کی ہلاکت خیزی کا خدشہ اس وقت اور بڑھ جاتا ھے جب کئی سالوں سے ایک ہی جگہ تعینات درجہ چہارم کا دفتری عملہ مسلسل دھکے مار کر خواتین کی تذلیل اور بے حرمتی کر رہا ہوتا ہے ، حتی کہ اندر موجود افسر اور عملہ بھی گورنمنٹ کی طرف سے فراھم کی گئی مالی امدار کا اپنا حق لینے گئی خواتین پر کرختگی سے دھاڑ رھا ھوتا ہے ، جن میں ذرا تربیت دکھائی نہیں دیتی کہ خواتین اور رش کو کیسے حکمت عملی ، شائستگی سے ڈیل کرنا ہے۔ ایک ہی دفتر میں بیس پچیس لوگوں کا عملہ بٹھانے کی بجائے پنجاب کی ان تحصیلوں کو چار پانچ زون میں تبدیل کر کے وہاں تین چار افراد کا سٹاف بھی بٹھا دیا جائے تو پوری تحصیل کا رش ایک جگہ نہ ہو۔ اور یہ عارضی دفاتر پوری تحصیل کے کسی بھی سکول میں مفت قائم ھو سکتے ھیں۔
ڈی جی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نوید اکبر کے کہنے کے مطابق سروے کرانے کے لئے خاتون کا آنا ضروری نہیں ھوتا کوئی مرد فیملی ممبر بھی آ کر سروے کرا سکتا ھے لیکن محکمہ مالی سپورٹ صرف خواتین کو کرتا ہے خواتین کا پیسے وصول کرنے کے لیے خود جانا ضروری ہوتا ہے۔ اس ضابطے کے باوجود کسی تحصیل دفتر میں روزانہ سینکڑوں گھریلو خواتین کی تذلیل اور بے پردگی روکی نہیں جا رہی کہ خواتین بلانے کی بجائے مرد بلا کر سروے مکمل کر لئے جائیں۔ میرے اپنے شہر پاک پتن میں کسی ایک بھی مرد سے کیا گیا سروے ریکارڈ پر نہیں سبھی خواتین بلائی گئیں ہیں کوئی مرد کاونٹر ہی نہیں بنایا گیا۔ اس ضمن میں متعلقہ ڈسٹرکٹ انچارج کو جب میں نے موسمی سنگین کفیت اور سہولیات کی عدم فراھمی کے باعث فون کال کر کے نشاندہی کی کہ ڈی جی محکمہ کے بتائے گئے محکمانہ قانون کے مطابق آپ سروے کے لئے خواتین کی بجائے مردوں کو کیوں نہیں بلاتے تو موصوف کا کہنا تھا کہ میرے دفتر میں ڈی جی کا نہیں میرا قانون چلے گا سروے کے لئیخواتین کو خود ہی آنا پڑے گا۔
رش کا دوسرا مرحلہ خواتین کو پیسوں کی وصولی کے دوران ھوتا ھے اس میں خواتین کو علم ہونا چاھئے کہ وہ یہ پیسے تین مہینے تک کسی وقت بھی وصول کر سکتی ہیں اور یہ پیسے 9 ماہ تک انکے اکاونٹ میں موجود رھتے ھیں اس لیے سہ ماہی قسط آتے ہی یکدم ہزاروں خواتین بنک فرنچائزی پر جانے کی بجائے کچھ دن انتظار کے بعد جائیں تو تذلیل اور خواری سے محفوظ رہ کر بھی امدادی رقم وصول کر سکتی ھیں۔ محکمہ کے ہیڈ آفس میں میڈیا اسسٹنٹ ڈائریکٹر احسن کے مطابق اس ضمن میں بھی جنوری تک زیادہ بنکوں کے اشتراک سے محکمہ بہتری لانے کا پلان کر چکا ہے۔
پاکستان میں بڑھتی غربت
Dec 24, 2023