ایرانی فن کاروں کے فن پاروں کی نمائش کا منظر

Feb 24, 2010

علامہ چودھری اصغر علی کوثر
خانہ فرہنگ ایران لاہور کے زیر اہتمام ایران کے اسلامی انقلاب کی 31 ویں سالگرہ کی تقاریب کے انعقاد کے ضمن میں شاہراہ قائدِ اعظم لاہور کے دہانے پر جلوہ گر الحمرا آرٹ سنٹر کی گیلری میں ایرانی فن کاروں، مصوروں اور خطاطوں کے فن پاروں کی ایک ایسی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ”فن معرق“ اور خطاطی کے علاوہ انواع و اقسام کی دستکاری کے نمونے رکھے گئے ہیں۔ اس نمائش کا افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے 18 فروری کو شام ساڑھے پانچ بجے کیا تھا اور خانہ فرہنگ ایران کے مہمانوں اور شائقین فن و ہنر کی موجودگی میں اس گیلری کے اندر راونڈ لیکر فن کاری کے تمام نمونوں کو دیکھا اور ان کو گراں قدر اور قابل ستائش گردانتے ہوئے ان ایرانی فن کاروں کی حوصلہ افزائی کی جو اپنے فن پاروں کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر ایران سے لاہور میں تشریف لائے، ان میں ”روضہ گل گلستانی“ ”علی پسندیدہ“ اور فرہاد فرجاد نیا شامل ہیں۔ آج اس نمائش کا آخری روز ہے کیونکہ وہ نمائش 18 فروری 2010ءسے 24 فروری تک ہی منعقد کرنے کا پروگرام رکھا گیا تھا ہم نے 22 فروری 2010ءکی شام کو بھی اس گیلری کا راونڈ کیا اور سید ذی شان الحسن نے جو انڈیریٹر کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں ہمیں ان فن کاروں سے ملایا، ہم نے فارسی زبان میں ان سے گفتگو کی اور انہوں نے ہم سے دریافت کیا کہ ہم کتنی بار ایران گئے ہیں اور فارسی پر عبور کس طرح حاصل کیا ہے، ہم نے ان سے عرض کیا کہ مغلیہ دور حکومت میں جبکہ مسلمان پورے ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے تو فارسی سرکاری اور درباری زبان تھی مگر آج کل بھی پاکستان میں فارسی کی تدریس جاری ہے تاہم یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارے اور اہل ایران لب و لہجہ میں اتنا فرق ہے کہ جب ہم فارسی بولتے ہیں تو جب تک ایرانیوں کی طرح جدید لب و لہجہ اختیار نہ کر لیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم فارسی نہیں کوئی اور زبان بول رہے ہیں اسی طرح جب ایران کے دو باشندے باہم گفتگو کر رہے ہوں تو ہمارے لئے اسے فوراً سمجھ پانا بھی آسان نہیں ہوتا مگر تھوڑی دیر تک متوجہ رہنے سے ”دریچہ گوش“ وا ہو جاتا ہے چنانچہ ان ایرانی فن کاروں کے ساتھ فارسی زبان میں ہمارے مکالمے کے باب میں انسدادی رکاوٹیں جلد ہی دور ہو گئیں اور ایران کی 26 سالہ خاتون فن کارہ روضہ گل گلستانی نے بتایا کہ ان کا تعلق ایران کے صوبہ خراسان کے شہر ٬٬بجنورد“ سے ہے اور وہ اپنے صوبے کی ایک بڑی فن کارہ تصور کی جاتی ہیں اسی لئے ان کو پاکستان میں آنے والے ایرانی فن کاروں کے وفد میں شمولیت کے لئے منتخب کیا گیا انہوں نے ایران کے شہر ”شاہرود“ کے ہائی ایجوکیشن کالج سے ڈریس ڈیزائننگ میں اپنی تعلیم مکمل کی ہے اور وہ اپنے علاقے کے لوک ورثہ کو شہرت کے طشت پر سجائے رکھنے اور گمنامی سے بچائے رکھنے کے لئے بڑی محنت کر رہی ہیں۔ ایرانی روائتی کشیدہ کاری میں 109 سے زیادہ اقسام ہیں جن میں کپڑے اور چمڑے پر کشیدہ کاری، ملبوسات کے بارڈر تیار کرنا اور پھندے لگانا بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس کے علاوہ شیشہ کاری، ڈوری کا کام اور ملبوسات کے کناروں کو موڑنے کے لئے خوبصورت ڈیزائن میں بھی وہ 1996ءسے کام کر رہی ہیں اور اب تک ان کے ہنرپاروں کی تقریباً 15 نمائشیں ہو چکی ہیں اس طرح علی پسندیدہ مصوری اور خطاطی کے میدان میں تو سنِ فن و ہنر دوڑا رہے ہیں وہ بھی ایران کے صوبہ خراسان کے شہر بجنورد کے باشندے ہیں ان کو ”انجمن خوشنویسان ایران“ کی طرف سے 1996ء میں خطاطی کا ڈپلومہ عطا کیا گیا وہ اب تک متعدد قومی اور بین الاقوامی نمائشوں میں شرکت کر چکے ہیں، انہوں نے 2004ءمیں خطِ شکستہ کے مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ حج کے موضوع پر منعقدہ نمائش میں بھی وہ افتخاری شیلڈ حاصل کر چکے ہیں مگر ایران کے شہر زاہدان سے تعلق رکھنے والے ”فرہاد فرجاد نیا“ فن معرق میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے لکڑی پر معرق کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اور بڑے بھائی سے حاصل کی مگر ان کے معیار سے آگے بڑھ کر بھی انہوں نے مزید تعلیم و ہنر کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا، وہ اب تک 40 سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی نمائشوں میں ”معرق“ اور ”مشبک کاری“ کے معیار کی داد حاصل کر چکے ہیں ان کے ساتھ فرنگیں یادگار کے مصورانہ نمونے بھی اس نمائش میں آراستہ ہیں۔ انہوں نے پہلے 2003ءمیں مشہد ایجوکیشن کالج سے ”سٹل آرٹ“ کالج سے فن مصوری میں ایم اے کیا۔ وہ ایران کے آرٹ کالجز اور ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس میں درس و تدریس کے فرائض بھی ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے ایجوکیشن کالج کے چوتھے آرٹ مقابلوں میں پوسٹر ڈیزائننگ میں اول پوزیشن حاصل کی اور ان کو طلائی تمغہ عطا کیا گیا۔ ان فن کاروں نے لاہور کو ایک نہایت خوبصورت شہر قرار دیا مگر لاہور کے اہم اور تاریخی مقامات کی سیر اس وقت کر سکیں گے جب 24 فروری کو وہ نمائش اختتام پذیر ہو گی انہوں نے لاہور اور تہران کے حسن و اوصاف کے بارے میں کہا کہ یہ دونوں شہر اپنا اپنا مزاج اور اپنا اپنا حسن رکھتے ہیں اور پوری دنیا سے جو لوگ ان شہروں میں آتے ہیں وہ ان کی آب و ہوا اور ان کے باشندوں کے انداز و ادا سے خوب متاثر ہوتے ہیں۔
مزیدخبریں