خوشحال اور پرامن معاشرہ کیلئے صدر زرداری کی فکرمندی عوام کو زبانی جمع خرچ کی نہیں‘ عملی اقدامات کی ضرورت ہے

Feb 24, 2011

سفیر یاؤ جنگ
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دہشت گردوں اور انکے حامیوں پر فتح کیلئے مضبوط معیشت ناگزیر ہے‘ جبکہ عوام کو روزگار کے مواقع دینا ہونگے تاکہ انکے بچے تشدد کی طرف نہ جائیں۔ گزشتہ روز اپنے دورۂ جاپان کے موقع پر جاپان پاکستان تجارتی تعاون کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تجارت‘ معیشت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں رابطوں کو تیز کرنے اور رکاوٹیں دور کرنے کیلئے جاپان پاکستان سپیشل ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے۔ اپنے دورۂ جاپان کے دوران صدر زرداری نے جاپانی وزیراعظم نواتوکان‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کے ارکان اور تاجر تنظیموں کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کیں‘ جن میں امن و ترقی کیلئے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے اور آئندہ سال 2012ء میں پاکستان جاپان سفارتی تعلقات کی 60ویں سالگرہ منانے کا طے کیا گیا۔
جاپان وہ ملک ہے جو دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کے ہاتھوں سب سے پہلے ایٹمی حملے کا نشانہ بنا اور اسکے دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی ہر ذی روح سمیت اس ایٹمی حملے میں نیست و نابود ہو گئے۔ اسکے باوجود جاپانی قوم نے ہمت نہ ہاری اور ایک عزم نو کے ساتھ جاپان کی ترقی و استحکام کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف ہو گئے اور اپنی معیشت کو ترقی دیکر اور عالمی منڈی میں قابل بھروسہ بنا کر صرف خود کفالت کی منزل ہی حاصل نہیں کی‘ اپنے ملک کو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی پہلی صفوں میں لا کھڑا کیا۔ آج پوری دنیا میں جاپانی مصنوعات اور الیکٹرانک کی جدید ٹیکنالوجی کا طوطی بولتا ہے۔ وہ صرف اپنے پائوں پر ہی کھڑا نہیں ہوا‘ دوسرے ممالک کی ترقی میں بھی ممدومعاون بن رہا ہے۔ اسکے برعکس ہم شروع دن سے اب تک ترقیٔ معکوس کی جانب گامزن ہیں اور برصغیر کے مسلمانوں کی انگریز اور ہندو کے ہاتھوں بنائی گئی جس حالت زار میں بہتری اور ترقی و خوشحالی کیلئے پاکستان کی شکل میں ایک الگ اور آزاد مملکت کی ضرورت محسوس کی گئی تھی نہ صرف وہ مقصد پورا نہ ہوا‘ بلکہ ہماری قیادتوں کی عاقبت نااندیشیوں کے باعث ملک کے عام شہریوں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی۔ یہاں نہ سیاسی استحکام حاصل ہو سکا‘ نہ قومی معیشت کی ترقی کا پہیہ سبک خرامی سے چل سکا۔ نتیجتاً لوگوں کیلئے روزگار کا حصول تو کجا‘ زندہ رہنے کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا جبکہ اسکے برعکس جمہوری اور غیرجمہوری طریقہ سے اقتدار پر براجمان ہونیوالے مفاد پرست طبقات نے ملک و قوم کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا‘ نہ یہاں کوئی بڑی صنعت لگنے دی اور نہ زراعت کو ترقی و استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہونے دیا جبکہ قومی دولت اور وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا شروع ہو گئے‘ جنہوں نے اقتدار کو بھی اپنے گھر کی لونڈی بنایا اور صنعت و تجارت کے تمام وسائل پر بھی خود قابض ہو گئے۔ چنانچہ ان مفاد پرست اشرافیہ طبقات میں ہر قسم کی سہولتوں اور دھن دولت کی ریل پیل ہوئی‘ انکے اندرونی اور بیرونی بنک اکائونٹ بھرنے لگے مگر عام آدمی کیلئے تن ڈھانپنا بھی مشکل ہو گیا۔ ملک اور اسکے عوام تو فقیر ہو گئے جبکہ حکمران طبقات کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد کی صفوں میں ہونے لگا۔ انگریز اور ہندو کے پیدا کردہ ایسے استحصالی نظام سے نجات کیلئے ہی تو برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی بے لوث اور عظیم قیادت میں یہ وطن عزیز حاصل کیا تھا‘ مگر یہاں ان کا آزاد فضا میں زندہ رہنا بھی مشکل بنا دیا گیا۔
ایسے استحصالی معاشرے میں جہاں شہریوں کو روٹی روزگار کے چکر میں الجھ کر جان کے لالے پڑے ہوئے ہوں اور غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور دیگر گھمبیر مسائل انہیں سر اٹھانے کی بھی مہلت نہ دے رہے ہوں تو وسائل سے محروم انکی اولادیں ردعمل میں بے راہ روی اور لاقانونیت کا راستہ ہی اختیار کرینگی۔ ہمارے حکمران طبقات کی من مانیوں اور تمام وسائل پر قابض ہونے کی ہوس نے آج معاشرے میں ویسے ہی حالات پیدا کئے ہوئے ہیں‘ جس کا خمیازہ عرب ممالک کے مطلق العنان حکمران سخت عوامی ردعمل کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے اقتدار پر براجمان لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی گزشتہ ایک ہفتے سے اپنی حکومت کیخلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے عوام کو یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ آپ اپنے ملک کو پاکستان یا افغانستان بنانا چاہتے ہیں؟ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی پالیسیوں کے نتیجہ میں تباہ حال ہونیوالی معیشت کو سہارا دینے کیلئے کشکول اٹھائے ملکوں ملکوں بھیک مانگ رہے ہیں اور جس جاپان کو امریکہ نے اپنی ہوس پرستی میں تہس نہس کر دیا تھا‘ وہ آج پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے انہیں قرض دینے کی پوزیشن میں ہے۔
صدر زرداری کو اگر یہ احساس ہے کہ ملک میں بدامنی‘ تشدد اور دہشت گردی کو روکنے کیلئے عوام کو روزگار دینا ہو گا تو انہیں یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ سیاسی استحکام کے بغیر یہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جبکہ حکمران طبقہ تو اپنی من مانیوں کے نتیجہ میں خود سیاسی عدم استحکام کو فروغ دے رہا ہے۔ نتیجتاً ملک میں سرمایہ کاری کا عمل بھی رک چکا ہے‘ قومی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے‘ صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور تجارت کے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بے روزگار نوجوانوں کا سیلاب آئیگا تو ایوان اقتدار کے محفوظ و مضبوط بنکروں میں موجود حکمران طبقات سمیت سب کچھ بہا کر لے جائیگا۔
اس وقت ملک جس ابتر صورتحال سے گزر رہا ہے‘ اسکی بنیاد پر تو یہاں تیونس‘ مصر‘ لیبیا سے بھی پہلے تبدیلی کی لہر پیدا ہو جانی چاہیے تھی‘ اس وقت عوام کے صبر کا پیمانہ فی الواقع لبریز ہو چکا ہے‘ اس لئے حکمران طبقات کو اپنی اقتدار کی باریاں لگانے اور باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے سسٹم کی اصلاح کیلئے فوری اور مثبت پیش رفت کرنی چاہیے اور عرب ممالک میں اٹھنے والی عوامی انقلابات کی لہروں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف آج عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کو پیش کئے گئے انکے دس نکاتی ایجنڈہ کی ڈیڈ لائن پوری ہونے پر بھی کوئی اطمینان بخش نتیجہ نہیں نکلا تو مسلم لیگ (ن) کیا کرے جبکہ عوام ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس ایجنڈے کے تحت کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کو اب تک گلے سے لگائے ہوئے ہیں اور متبادل قیادت کے طور پر انکے عوام کیلئے امید کی کرن بننے میں کیا امر مانع ہے۔ سسٹم کی بقاء کے نام پر ایک دوسرے کو بچانے کی فکر میں حکمران طبقات نے پہلے ہی بہت کچھ کھو دیا ہے‘ اس لئے اب قوم مزید کسی ضیاع کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسے اپنی حالت زار میں بہتری کیلئے حکمرانوں کے زبانی جمع خرچ کی نہیں‘ عملی اقدامات کی ضرورت ہے‘ اگر مجبور و مقہور عوام کو دھتکارنے کی پالیسی برقرار رکھی گئی تو انکے پاس تنگ آمد بجنگ آمد کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ حکمرانوں کو عوامی غیض و غضب سے بچنے کا اہتمام کرلینا چاہیے۔
گودھرا ٹرین آتشزدگی
بھارتی عدالت کا یکطرفہ فیصلہ
بھارتی گجرات کی خصوصی عدالت نے 9 سال بعد گودھرا ٹرین کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 94 نامزد ملزمان میں سے 63 کو باعزت بری کر دیا جبکہ 31 مسلمانوں کو مجرم قرار دیکر فرد جرم عائد کر دی۔ کل ملزموں کو سزائیں سنائی جائیگی۔
گودھرا ٹرین سانحہ 2002ء میں ہوا‘ جب بھارتی ایکسپریس گودھرا ریلوے سٹیشن پر آتشزدگی کی لپیٹ میں آگئی‘ اس میں 58 افراد مارے گئے‘ ان میں اکثریت بہار سے مذہبی رسوم میں شرکت کے بعد واپس آنیوالے ہندوئوں کی تھی‘ اس آتشزدگی کا پولیس نے فوری طور پر الزام مسلمانوں پر لگایا جس کے بعد گجرات میں مسلم کش ہنگامے شروع ہو گئے جس میں 2000 مسلمان جاں بحق ہوئے۔ وزارت ریلوے نے تحقیقات کیلئے ایک کمشن تشکیل دیا‘ جس نے ٹرین آتشزدگی کو محض حادثہ قرار دیا جس پر گجرات ہائیکورٹ نے نہ صرف رپورٹ کو مسترد کر دیا‘ بلکہ ریلوے کمشن کی تشکیل کو بھی غیرقانونی قرار دے دیا۔ آج ٹرین کو جلانے کے الزام میں 31 مسلمانوں کو تو سزا سنا دی گئی ہے‘ لیکن اس آتشزدگی کے ردعمل میں جلائے اور مارے جانیوالے دو ہزار مسلمانوںکے ورثاء کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جن لوگوں کو مقدمات میں نامزد کیا گیا‘ وہ وزارت پر فائز رہے اور آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے ایک ملزم نے رضاکارانہ طور پر اقرارِ جرم کیا‘ اس نے جن بااثر ساتھیوں کا نام لیا‘ ان کیخلاف بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ بھارت بزعم خویش جمہوریت کا چیمپئن اور سیکولرزم کا دعویدار ہے‘ لیکن یہاں سب سے بڑی اقلیت سے معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ انصاف سب کیلئے یکساں ہونا چاہیے۔ قائداعظم نے فرمایا کہ ہم ہندوستان میں رہ جانیوالے مسلمانوں کا پاکستان سے بہتر طریقے سے تحفظ کرینگے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ 2002ء میں گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کرنیوالے انتہا پسند ہندوئوں کیخلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی کرنے کیلئے بھارت پر دبائو ڈالے۔
الیکشن کمشن انتخابی اخراجات
کی حد پر نظرثانی کرے
سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرکے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے اخراجات کی حد پندرہ اور دس لاکھ سے بڑھا کر پچاس اور تیس لاکھ کر دی گئی ہے جبکہ دوہری شہریت رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دے دیا جائیگا۔
امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی کو اس سے قبل بھی الیکشن کمشن نے ہی پندرہ اور دس لاکھ روپے خرچ کرنے کی اجازت تھی جبکہ بعض امیدوار اس سے کہیں بڑھ کر خرچ کرتے تھے۔ الیکشن کمشن سمیت کوئی ادارہ ان سے پوچھتا تک نہیں ہے۔ زائد اخراجات پر کیا آج تک کسی ایک کو بھی سزا ہوئی ہے؟ اب پچاس اور تیس لاکھ الیکشن کمشن نے خود مقرر کئے ہیں۔ تو امیدوار تو کروڑوں روپے میں خرچ کرینگے۔ کیا اتنی بڑی رقم ووٹروں کو خریدنے کیلئے رکھی جا رہی ہے۔ ایک باصلاحیت‘ نیک صفت سیاستدان اگر اتنی رقم نہیں خرچ کریگا تو یقیناً میدان ہار جائیگا اور 50 یا 30 لاکھ خرچ کرکے ممبر بننے والا کیا اس سے دوگنا رقم اکٹھی کرنے کی تگ و دو نہیں کریگا؟ کیا ایسی صورت میں لوٹ مار‘ کمیشن اور کرپشن کا بازار گرم نہیں ہو گا؟ اتنی بڑی رقم خرچ کرنے والا امیدوار ہارنے کے بعد پانچ سال تک ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھا رہے گا سیاسی جماعتیں ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر ازسرنو غور کریں۔
الیکشن کمشن انتخابی عذرداری پر فیصلہ کو 120 روز میں یقینی بھی بنائیں‘ اس سے قبل تو 5 سال تک فیصلے لٹکے رہتے تھے۔ الیکشن کمشن اور سیاسی جماعتوں نے دوہری شہریت رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دینے کا اچھا قانون بنایا ہے۔ یہ مرحلہ اگر امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے وقت ہی حل کیا جائے تو بہتر ہو گا تاکہ دوبارہ الیکشن کروانے کا خرچ نہ اٹھانا پڑے‘ اس سلسلے میں قانون پر سختی سے عمل کو یقینی بنایا جائے۔
فاطمہ جناح انسٹیٹیوٹ آف ڈینٹل
سائنسز پراجیکٹ فوری تکمیل کا متقاضی
عوام کو تعلیم اور صحت کی مفت سہولتیں فراہم کرنا ایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے‘ پاکستان تو اسلامی جمہوریہ بھی ہے‘ یوں مذکورہ سہولتوں کی فراہمی کی حکومت پر مزید ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ گو حکومت تعلیم اور صحت کے میدان میں اپنی سی کوشش کر رہی ہے‘ لیکن ضرورت کے مطابق وسائل نہ ہونے کے باعث ہر شہری تک معیاری تعلیم اور صحت کی مفت سہولت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اسکے باوجود موجودہ پنجاب حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی میں ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں‘ تعلیمی معاملات پر بھی حکومت اپنے وسائل کے مطابق بھرپور توجہ دے رہی ہے۔ صحت مند معاشرے کیلئے افراد کا تندرست ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب اس شعبے کو اولیت دی جائیگی۔ میڈیکل کالجوں میں اساتذہ کی کمی کی شکایات بھی ہیں‘ ان کا فوری طور پر ازالہ ہونا چاہیے۔ آج ہر تیسرا شخص دانت کے امراض میں مبتلا ہے‘ ڈینٹل ڈاکٹروں کی فیسیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں‘ اکثر مریض عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر بیماری کو لاعلاج کروا بیٹھتے ہیں‘ سرکاری سطح پر ڈینٹل ہسپتال بہت کم ہیں۔ 31 جولائی 2005ء کو سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے جوبلی ٹائون میں فاطمہ جناح انسٹیٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز کا افتتاح کیا تھا‘ اس پراجیکٹ کو پونے تین سال میں مکمل ہونا تھا جو آج چھ سال بعد بھی تکمیل کے مراحل طے نہیں کر سکا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہر اچھے کام کی تحسین کرتے ہیں‘ وہ انکے دور میں شروع ہوا‘ یامخالفین کے دور میں۔ فاطمہ جناح انسٹیٹیوٹ ایک خالصتاً عوامی فلاح کا منصوبہ ہے‘ وزیراعلیٰ پنجاب جلد از جلد اسکی تکمیل کو یقینی بنائیں۔
مزیدخبریں