عالمی اور علاقائی تناظر میں گوادر کی بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنے اور ایران سے گیس پائپ لائن کو پاکستان تک لانے کے دو معاہدوں کو زبردست اہمیت حاصل ہے۔ امریکہ کی واضح ناراضگی کے باوجود پاکستان کی وزارت خارجہ نے نامساعد حالات میں یہ منزل حاصل کر لی ہے....!
صدر آصف علی زرداری کی یہ خوبی لائق تحسین ہے کہ وہ اکثر اہم فیصلے شوروغل مچائے بغیر انجام دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان کو ایک عالمی طاقت غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس حوالے سے بعض شواہد کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ ایران کے اخبار تہران ٹائمز نے شیعوں کے قتل عام میں امریکہ کو ملوث قرار دیا ہے۔
صدر کرزئی کی افغان حکومت اور بھارت کی جانب سے بلوچستان میں مداخلت کا ذکر تو خود حکومت کی سطح پر ہوتا رہا ہے.... ان تمام سازشوں کی بڑی وجہ گوادر کی بندرگاہ ہے‘ جو رفتہ رفتہ علاقے میں معیشت‘ اقتصادیات‘ تجارت اور دفاعی حوالوں سے غیر معمولی اہمیت اختیار کرتی جائے گی.... چین سے پہلے یہ بندرگاہ ایک معاہدہ کے تحت سنگاپور کے حوالے کر دی گئی تھی.... مگر اب پاکستان کی ملکیت کو برقرار رکھتے ہوئے انتظامی امور چین کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔18 فروری کی شام ایوان صدر میں ایک مختصر تقریب میں گوادر کی بندرگاہ ایک معاہدے کے تحت چین کے حوالے کر دی گئی۔ تقریب میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی موجود تھیں‘ جو وقت کے ساتھ خارجہ پالیسی کے امور میں غیر معمولی اہمیت کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ قومی اہمیت کے معاملات میں وہ محتاط گفتگو کرتی ہیں اور بہت بولڈ فیصلے صادر کر دیتی ہیں۔
یہ تقریب بظاہر کتنی ہی مختصر تھی‘ گوادر کی بندرگاہ کو امریکہ کے ”حریف“ چین کے حوالے کرنا بہت بڑا فیصلہ ہے اور صدر زرداری کی ”خاموش ڈپلومیسی“ کا قابل تحسین کارنامہ ہے۔ شاید چند دنوں سے بلوچستان‘ خاص طور پر کوئٹہ میں ہونے والے دلخراش واقعات کا بڑا سبب یہ ہو کہ پاکستان پر زبردست دبا¶ ڈالا جائے کہ وہ گوادر کو چین کے حوالے نہ کرے۔ پاکستان نے یہ دبا¶ مسترد کر دیا اور ایک تاریخی منظر 18 فروری کو جلوہ گر ہو گیا۔
پیر کے روز ہونے والے اس فیصلے نے بھارتی حکام کی نیندیں اڑا دیں۔ کیونکہ گوادر پورٹ کے ذریعے چین کو ”بحیرہ¿ عرب“ میں ایک ”نیول بیس“ مہیا ہو گئی ہے۔ پاکستان نے چین کی محبتوں کا دیرینہ قرض چکا دیا ہے.... اور یقیناً یہ کارنامہ صدر زرداری کے ہاتھوں انجام پایا ہے۔ معاہدہ کا اعلان منعقدہ تقریب میں صدر آصف علی زرداری نے خود کیا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ چین‘ افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے جو تیل حاصل کرتا ہے‘ فاصلوں میں ہزاروں کلومیٹر کی کمی واقع ہو جائے گی۔
صدر پرویز مشرف امریکہ کی ناراضگی مول لینے کے حق میں نہیں تھے اس بنا پر انہوں نے گوادر پورٹ کا کنٹرول چین کے حوالے کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ اسی ماہ 6 فروری کو انڈیا کے ڈیفنس منسٹر اے کے انٹونی نے اس فیصلے پر نئی دہلی کے تحفظات کا اظہار کیا تھا.... مگر یہ احتجاج بھی فضا میں تحلیل ہو گیا۔
پاکستان کی دو اہم بندرگاہوں‘ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کے ساتھ تیسری بندرگاہ گوادر پورٹ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کراچی سے 533 کلومیٹر دور اور ایران کی سرحد سے 120 کلومیٹر پر بلوچستان میں گوادر پورٹ موجود ہے۔ کوئٹہ گوادر سے 970 کلومیٹر دور ہے۔گوادر پورٹ پر پینے کے صاف پانی کا ایک پلانٹ بھی لگایا گیا ہے جو روزانہ جہازوں کو ایک لاکھ گیلن پانی فراہم کرے گا۔گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ پاکستان کی تجارت بڑھے گی‘ ملک کو وسائل مہیا ہوں گے.... دوسری جانب ایک بڑی طاقت چین کی موجودگی کی بنا پر بھارت کی ریشہ دوانیوں سے‘ سمندر میں نجات مل جائے گی.... عالمی اور علاقائی تناظر میں چین کی طاقت اور اہمیت میں اضافہ ہو گا جس سے بھارت کو لگام لگ جائے گی.... امریکہ اس فیصلے سے ناخوش ہے‘ مگر صدر زرداری نے پاکستان کے مفاد میں ایک جرا¿ت مندانہ فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کو ایران سے گیس سپلائی کرنے کا معاملہ بھی دیرینہ اور صبر آزما مسئلہ رہا ہے.... امریکہ اس منصوبے کا ابتداءسے ہی مخالف رہا ہے۔ مگر صدر آصف علی زرداری نے اس حوالے سے بھی شور مچائے بغیر حوصلہ مندانہ فیصلہ کیا ہے۔لاہور میں ایران کی مجلس شوریٰ کے سپیکر علی اردی شیر لاریجانی سے گفتگو میں پاکستان کے انرجی کرائسس سے نجات کیلئے صدر زرداری نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی جلد تکمیل پر زور دیا۔ امریکہ کی رضامندی کے بغیر بلکہ مخالفت کے باوجود پاک ایران پائپ لائن کو مکمل کرنے کا عہد ایک دلیرانہ اقدام ہے۔ فیصلے کے مثبت اور دوررس نتائج برآمد ہوں گے....
تہران کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران کے ڈپٹی پٹرولیم منسٹر نے چند ہفتوں میں پائپ لائن کے کام کے آغاز کی نوید سنائی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایرانی بینکس پروجیکٹ کیلئے فنڈز مہیا کریں گے.... منصوبے کے حوالے سے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھی احکامات صادر کر دیئے ہیں۔خالص پاکستان کے حق میں کسی بڑی طاقت کی مخالفت کے باوجود‘ پاکستان کے دو دوست ممالک چین اور ایران سے منصوبوں میں پیشرفت‘ صدر زرداری کی ڈپلومیسی کے دو بڑے کارنامے ہیں.... البتہ صدر زرداری اس حوالے سے زیادہ گرم خبروں‘ بڑی ہیڈ لائنوں اور زیادہ چرچوں کے حق میں نہیں ہیں.... اور نہ ہی ڈھول پیٹے گئے۔اب جبکہ مثبت پیشرفت کا آغاز ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ کوئٹہ اور بلوچستان میں ہونے والی سازشیں بھی دم توڑنے لگیں گی۔