ہندو مسلم تہذیب میں مسابقت

Feb 24, 2013

پروفیسر نعیم قاسم

20ویں صدی کے آغاز ہی سے جنوبی ایشیاءکی ہندو اور مسلم تہذیبوں کے درمیان تصادم اور مسابقت کی ایک دوڑ جاری ہے۔ حصول آزادی تک کسی نہ کسی طرح ہم ہندو تہذیب کی کارکردگی کا مقابلہ مساوی سطح پر کرنے میں کامیاب رہے جس کا سب سے نمایاں اظہار حصول پاکستان کی جدوجہد میں ہماری کامیابی تھی۔ حصول آزادی تک ہندو اور مسلم تہذیبوں کی کارکردگی کے درمیان کچھ نہ کچھ توازن قائم رہا لیکن حصول آزادی کے بعد کی نصف صدی میں کئی حوالوں سے مسلم تہذیب کی پرفارمنس ہندو تہذیب کی کارکردگی سے کم رہی۔ 14اگست 1947ءکے بعد مسلم تہذیب کا علمبردار اور ترجمان پاکستان تھا جس کو 1971ءمیں زبردست دھچکا لگا ۔ بدقسمتی سے ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی سبق نہ سیکھا اور اس کے بعد بھی پاکستان نے ضیاالحق اور مشرف کے مارشل لاءحکومتوں کو بھگتا۔ قومی جیوری لیڈروں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ناکردہ گناہوںکی پاداش میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ نواز شریف کو جیل کی صعوبتوں اور جلا وطنی کی سزا کاٹنی پڑی۔ بے نظیر بھٹو پر بے تحاشا مقدمات قائم کئے گئے اور جب وہ پاکستان واپس آئیں تو نادیدہ ہاتھ نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جمہوریت، معیشت قومی ہم آہنگی، سماجی اور سیاسی روایات کو کبھی بھی اعلیٰ انسانی اصولوں کیمطابق فروغ دینے میں ہم مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ فرقہ واریت اور دہشت گردی کا زہر ہماری رگوں میں اتر چکا ہے۔ ہماری قومی زندگی کے کسی بھی شعبے میں کارکردگی قابل قدر یا قابل رشک نہیں ہے۔ سیاست میں جمہوریت کے نام پر سول ڈکٹیٹر شپ اور بڑے بڑے لیڈران نواز شریف آصف زرداری، عمران خان، اسفند ولی یار، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن کی کچن کیبنٹ ہی پارٹی میں تمام فیصلے کرتے ہیں۔ فرقہ واریت اور دہشت گردی کی چیلنجوں سے نمٹنے میں ہماری سیاسی اور فوجی قیادت مکمل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ ہم ان تمام مسائل سے نمٹنے کی بجائے شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔قارئین قوموں کے ضعف اور قوت کا اصلی اظہار کسی چیلنج یا کسی بحران کے وقت ہوتا ہے۔ عام حالات میں دو حریف قوموں کی تقابلی کمزوری اور مضبوطی کی کیفیت پر پردہ پڑا رہتا ہے لیکن جب کوئی ایسا مرحلہ آ جائے کہ دو قومیں چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود آنکھوں میں آنکھیں ڈالے آمنے سامنے کھڑی ہو جائیں تو اس وقت مجموعی برتری رکھنے والی قوم کی بالادستی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ کارگل آپریشن کی صورتحال نے جون 1999ءاور جولائی کے پہلے ہفتے جو شکل اختیار کی اور اس کا جو بھی ڈراپ سین ہوا اور چار جولائی کے اعلان واشنگٹن کے بعد واقعات کی صورت میں سامنے آیا تو وہاں سے پتہ چلا کر کارگل میں فوجی کامیابی کیلئے سفارتی، ثقافتی اور پراپیگنڈے کے محاذ پر بھی ہمیں ہوم ورک کرنا چاہئے تھا۔ بھارت کا یہ خیال ہے کہ پاکستان بادل نخواستہ بن تو گیا ہے لیکن اسے جنوبی ایشیا یا صحیح تر لفظوں میں بھارت کے مدار میں گردش کرنی چاہئے۔ پچھلے 65سالوں میں متعدد بھارتی سکالرز، حکمران اور سیاستدان اس خیال کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کا مرکز ثقل نیو دہلی ہونا چاہئے۔ مشرق وسطیٰ چین اور واشنگٹن نہیں سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ زندہ رہنے کا طریقہ سیکھنا چاہئے۔ جنوبی اشیاءمیں پاکستان کے علاوہ دوسرے تمام ممالک کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی برتری کو سمجھتے بھی ہیں اور عملاً اسکی بالادستی کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ بھارت پاکستان سے بھی یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیاءکے دوسرے ممالک نیپال، برما، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی طرح بھارتی منرو ڈاکٹرن کو خاموشی سے تسلیم کر لے۔ جب بھارت نے گذشتہ سال ایٹمی دھماکے کئے تھے تو اس وقت مسٹر ایل کے ایڈوانی نے یہ کہا کہ پاکستان کو نئے حقائق کا ادراک کرنا چاہئے۔ ان کا اشارہ بھی اسی طرف تھا کہ پاکستان کو معلوم ہونا چاہئے کہ بھارت ایک بڑی قوم ہے۔ ”وہ منی سپر پاور ہے“ اور جنوبی ایشیاءمیں کوئی ملک بھارت کیلئے پریشانیاں پیدا کرکے عافیت سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ دنیا ہندوستان کو محض اس لئے سیکولر تسلیم کرتی ہے کہ وہ جمہوریت، اعلیٰ عدالتی اور آئینی فیصلوں اور کسی حد تک خارجہ پالیسی اور معیشت کے میدانوں میں پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی بھی یہ دعویٰ کرے ہم صحیح معنوں میں ایک سیکولر بھارت کے علمبردار ہیں۔ بھارتی دانشور یہ کہنے کے عادی ہیں اور ہمارے بھارت کی تہذیب سے مرعوب دانشور بھی ان کی تائید کرتے ہیں ۔ گذشتہ 52سالوں کے دوران پاکستان نے بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کیلئے جو بھی کوشش کی ہے ہمیں کبھی اس کا مثبت جواب نہیں ملا ہے۔ قائداعظم اور فیلڈ مارشل ایوب خان اس بات کیلئے ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے بھارت کو مشترکہ دفاع کی تجویز پیش کی لیکن بھارت نے اس پیشکش کو بڑی نخوت سے ٹھکرا دیا۔ اسکی سب سے بڑی اور گہری وجہ یہ تھی کہ مشترکہ دفاع پر اتفاق رائے کرنے کے بعد بھارت کے نہاں خانہ دماغ میں مستقبل کے کسی مرحلے پر پاکستان کو اسکی کلی حاکمیت سے محروم کرنے کا جو جذبہ اور ارادہ موجود ہے اسکے حقیقت بننے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ بھارت ایسا پاکستان بھی برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا جو اسکے ساتھ مشترکہ دفاع پر اتفاق کرنے کے بعد اسکے متعدد نہایت ہی اہم مالی سیاسی اور نظریاتی مضمرات کو تسلیم کرنے پر آماد ہو۔ پاکستان نے اپنی تمام تر کمزریوں کے باوجود نیو دلی کو اپنا مرکز ثقل بنانے سے انکار کیا ہوا ہے اور وہ اپنی اسلامی شناخت سے جڑا ہوا ہے اور ان کی وجہ سے مسلم دنیا کے ممالک سے اپنے قریبی تعلق کو خیرباد کہنے یا کمزور کرنے یا قدرے پس پشت ڈالنے پر آمادہ نہیں ہے۔ بھارت کو یہ بات کل بھی نہیں منظور تھی اور نہ ہی آج ہے کہ پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر اپنی شناخت برقرار رکھے کیونکہ وہ اس نظریے کو اپنے زاویہ نگاہ سے برصغیر جنوبی ایشیاءکی بہت سی مشکلات کا باعث سمجھتا ہے۔ یہ طرز فکر بھارت کی تمام حکمران اوراپوزیشن کی سیاسی جماعتوں میں قدر مشترک ہے۔ چنانچہ پاکستانی قوم کیلئے ضروری ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے اختلافات کی فکری جہت کا بھرپور ادراک کریں اور اس کے مضمرات کو بھی ایک لمحے کیلئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ ہمیں اپنے پیکر خاکی میں اتنی جاں پیدا کرنا ہو گی کہ بھارت کی مجموعی قومی کارکردگی یعنی زندگی کے جملہ شعبوں مثلاً سیاست معیشت، عدلیہ اور انسانی حقوق میں اپنی کارکردگی بہتر نہیں تو برابر بنا سکیں ورنہ یہ اندیشہ بے بنیاد نہیں ہے۔ یہ امور ہمارے پالیسی سازوں کے ذہنوں میں ہونے چاہئیں۔ 

مزیدخبریں