لاہور (خصوصی رپورٹر+ سٹاف رپورٹر ) جمعیت علماءاسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو استحکام پاکستان کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے اتفاق کیا ہے کہ جب تک امریکہ اس خطے سے نہیں نکلے گا پائیدار امن نہیں ہوسکتا۔ امن و امان کے قیام کا واحد حل صرف مذاکرات ہیں۔ آج جماعت اسلامی نے جے یو آئی (ف) کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول کرلی ہے۔ گزشتہ روز دونوں رہنماﺅں کے درمیان جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ میں ملاقات کی جہاں مولانا فضل الرحمن امیر جماعت اسلامی جے یو آئی (ف) کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے آئے تھے۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی صورتحال خصوصاً قیام امن کےلئے کاوشوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کی قیادت کو فاٹا میں قیام امن کےلئے 28فروری کو اسلام آباد میں طلب کی جانےوالی اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی جو قبول کر لی گئی ۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فاٹا کے امن سے ملک کا امن وابستہ ہے ۔ فاٹا کے گرینڈ جرگہ نے امن و امان کیلئے سیاسی قیادت سے خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ جرگہ خطے میں قیام امن کےلئے کردار ادا کرنا چاہتا ہے ۔ اس کےلئے ہمیں میزبانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔اس سلسلہ میں 28فرور ی کو اسلام آباد میں اے پی سی بلائی ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اور اکابرین شرکت کریں گے ، اس میںگرینڈ جرگہ کے نمائندگان براہ راست سیاسی قیادت سے ملیں گے ۔ اسی سلسلہ میں سید منور حسن سے ملاقات کی ہے اور انہوںنے اس میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے جبکہ 25فروری کو نواز شریف سے بھی ملاقات کرکے دعوت دیں گے۔ انہوں نے طالبان کی طرف سے مذاکرات کے بیان پر سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ابھی تک تو بیان کی حد تک ہی ہے اور مجھے اسکی باقی تفصیلات کا علم نہیں لیکن طالبان کی طرف سے مذاکرات کی خواہش پر مثبت جواب ملنا چاہیے۔ انہوں نے ایم ایم اے کی بحالی کے سوال کے جواب میں کہا کہ آج کی ملاقات کا یہ موضوع نہیں تھا ۔ انہوں نے جے یو آئی اور ایم کیو ایم کی طرف سے آخری وقت میں حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ اس سوال میں نیک نیتی نہیں ‘ ہم نے حکومت کو کب کا چھوڑ دیا جبکہ ایم کیو ایم کا سب کو پتہ ہے ۔ انہوں نے اسلام کی حمایت اور امریکہ کی مخالفت میں ووٹ حاصل کرنے اور انتخابات کے بعد امریکہ کی حمایتی حکومت سے اتحاد کے سوال کے جواب میں کہا کہ اصل چیز حکمت عملی ہے ہم نے پارلیمنٹ میں چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں قرارداد منظور کرائی اس کو سراہا جانا چاہیے ۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ الیکشن کمشن کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ لیکن الیکشن کمشن کو بھی ایسے اقدامات میں احتیاط برتنی چاہیے جس سے اسکی غیر جانبداری مجروح ہو۔منور حسن نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت پر آمادگی اور اس کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہوتی ہیں۔ جب حکومتیں اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو جائیں تو پھر ملک کی سیاسی و دینی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ مل جل کر امن و امان قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اے پی سی میں شرکت کرے گی اور اس حوالے سے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرےگی۔