21فروری 2013ءکو قومی اسمبلی میں جمشید دستی اور پیپلز پارٹی کے جیالوں نے یہ بل پیش کیا کہ یہ قائد اعظمؒ میڈیکل کالج کا نام تبدیل کرکے ذوالفقار علی بھٹو رکھا جائے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ میڈیکل سائنسز (PIMS) اسلام آباد کا نام بھی پاکستان ہٹا کر ذوالفقار علی بھٹو رکھا جائے۔ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات بہت زیادہ تھیں۔ وہ پہلے ایوب خان کے کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے اور 1970ءمیں پنجاب میں مغربی پاکستان میں نشستیں حاصل کیں۔ مشرقی پاکستان میں ایک نشست بھی نہ تھی ادھر شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں زیادہ نشستیں حاصل کیں، چاہئے تو یہ تھا کہ اکثریت والی پارٹی کو حکومت سونپ دی جاتی مگر یحییٰ خان نے بے انصافی کی اور بھٹو صاحب بضد تھے کہ حکومت میں حصہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا پاکستان دو لخت ہوا۔ کون ذمہ دار ہے؟ آپ سوچیں جس پارٹی کا یہ نعرہ تھا جمہوریت ہماری سیاست، اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری حقیقت ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان ہر ایک کے لیے۔ کیا ہوا؟ عوام کا اور قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کے بعد اپنے پیغام میں فرمایا:۔
”ہم نے پاکستان کی جنگ آزادی جیت لی ہے مگر اسے برقرار رکھنے اور مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی سنگین ترین جنگ ابھی جاری ہے۔ اگر ہمیں ایک بڑی قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنی ہو گی۔ آپ کو وطن عزیز کی سر زمین پر اسلامی معاشرتی عدل اور مساوات انسانی کے اصولوں کی پاسبانی کرنی ہے۔ آپ کو ان کے لیے ہر وقت تیار رہنا پڑے گا۔ سستانے کا موقعہ ابھی نہیں آیا۔ یقین محکم، ضبط و نظم اور ادائیگی فرض کی دھن ایسے اصول ہیں کہ اگر آپ ان پر کاربند رہے تو کوئی شے ایسی نہیں جو آپ حاصل نہ کر سکیں“۔
قائد اعظمؒ نے اپنے ایک اور خطاب میں واضح کیا کہ:۔
”میں نے مسلمانوں اور پاکستان کی جو خدمت کی ہے وہ اسلام کے ادنیٰ سپاہی اور خدمت گزار کی حیثیت سے کی ہے۔ اب پاکستان کو دنیا کی عظیم قوم اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے آپ میرے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔ میری آرزو ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی مملکت بن جائے تاکہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے فاروق اعظمؓ کے سنہری دور کی تصویر عملی طور پر کھینچ جائے۔ اللہ میری اس آرزو کو پورا کرے“۔
مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں بل کی مخالفت کی مگر مسلم لیگ قائد اعظم خاموش تماشائی رہی۔ نہ بولے، نہ احتجاج کیا گےا کہ قائد اعظمؒ کا نام نہیں ہٹایا جائے۔ گویا وہ بل کی منظوری میں شامل رہے اور راضی رہے کہ قائد اعظمؒ کا اسم گرامی ہٹا کر ذوالفقار علی بھٹو رکھا جائے۔ مسلم لیگ قائد اعظم گروپ مشہور سیاسی گھرانہ ہے۔ سیاست سے آشنا ہیں جبکہ اقتدار میں تھے۔ ملک کی خدمت کی، کچھ مسائل حل کیے، عوام سے وابستگی رکھتے ہیں۔ حکومت کرنے کا شوق ہے، پہلے میاں نواز شریف کے ساتھ خصوصیت سے وابستہ رہے۔ جب نواز شریف کا تختہ 1998 ءمیںالٹا۔ جنرل مشرف نے ان کو اٹک جیل میں مہمان رکھا اور بیرون ملک سعودی عرب میں روانہ کیا۔ آٹھ سال ملک سے دور رہے تو گجرات کے چودھری صاحبان نے وابستگی جنرل مشرف کےساتھ کر لی اور کہا کہ دس بار بھی الیکشن کرائیں گے۔ ہر طرح کے علاقائی فائدے لیے۔ جنرل مشرف کو یقین دلایا، اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ساتھ رہے۔ جنرل مشرف کو سلامی کے بعد ملک سے باہرروانہ کیا تو سائیکل سوار مسلم لیگ سہارا ڈھونڈنے لگی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایسے افراد کی ضرورت تھی۔ صدر زرداری کو اسمبلی میں ان کی ضرورت تھی۔ گزشتہ تلخی کو بھلا کر نائب وزیر اعظم کا عہدہ دے دیا اور اب مسلم لیگ پیپلز پارٹی کی ضمنی جماعت ہو گئی ہے۔ لہٰذا اس گروپ کو چاہیے کہ یہ اپنی پارٹی کا نام پیپلز لیگ یا مشرف لیگ رکھ لیں۔ جس طرح حسین شہید سہروردی نے مسلم لیگ سے ناراض ہو کر عوامی لیگ نام رکھا۔ اب اس گروپ کی لیڈر شپ کو چاہیے کہ نام تبدیل کر لیں کیونکہ الیکشن میں بھی معاہدہ ہو گیا اور مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کریں گے۔ لوگوں کو اس سے دکھ ہوا کہ مسلم لیگ (قائد اعظمؒ) نے بل کی مخالفت نہیں کی۔