اسلام آباد(آن لائن) سابق گورنر سندھ و وفاقی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا ہے کہ حکومت جن لوگوں سے مذاکرات کررہی ہے ان کی باتیں ملک کی اکثریت کیلئے قابل قبول نہیں کیونکہ یہ اقلیت ملک کی اکثریت پر اپنا نظام ٹھونسنا چاہتی ہے‘ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا لیکن اہتمام حجت کے طور پر مذاکرات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں‘ ملک اس وقت کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے‘ ہمیں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ اپنے انٹرویو میں معین الدین حیدر نے مزید کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا معاملہ اس وقت اٹھا جب میں وزیر داخلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں مسئلہ یہ تھا کہ ہماری 20 سے زائد جہادی تنظیمیں کشمیر میں متحرک تھیں اور زیادہ تر کشمیر میں ہی کارروائیاں کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر تنظیمیں پاکستان میں کسی قسم کی گڑبڑ نہیں کرتی تھیں لیکن آج ان میں سے چند جماعتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں ملوث ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے ایسی پاکستانی جہادی تنظیمیں جو کشمیر کیساتھ ساتھ افغانستان میں بھی متحرک تھیں اب انہوں نے پاکستان میں بھی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بھارت کیساتھ تعلقات کا تعلق ہے تو یہ ممکن نہیں کہ بھارت یہ چاہے کہ ہم کشمیر کو بھول جائیں‘ پانی کا مسئلہ فراموش کردیں اور تعلقات بہتر بھی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں جمہوریت ہے۔ ملک میں مارشل لاء اس وقت آتا ہے جب سیاستدان ناکام ہوجائیں۔