کالا باغ ڈیم کیلئے ریفرنڈم کرانا چاہیے‘ نصاب میں دو قومی نظریہ‘ اسلامی قومی ہیروز کو شامل کیا جائے : نظریہ پاکستان کانفرنس کے گروہی مباحثوں کی سفارشات

Feb 24, 2014

لاہور (خبرنگار) نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہورمیں ہونیوالی چھٹی سالانہ سہ روزہ نظریۂ پاکستان کے پہلے دن تیسری نشست میں مختلف موضوعات پر گروہی مباحثے ہوئے جس میں شرکاء نے بھرپورحصہ لیا اور متفقہ طور پر اپنی سفارشات مرتب کیں۔ ان گروہی مباحثوں کاکلیدی موضوع’’ پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی جمہوری مملکت بنانے کا لائحہ عمل‘‘تھا۔ اسکے چیف کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر جسٹس (ر) منیر احمد مغل تھے جبکہ معاونین کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر پروین خان اور پروفیسر حلیمہ سعدیہ نے ادا کئے۔ اظہر مقبول شاہ ایڈووکیٹ کی زیرصدارت ہونیوالے گروپ نمبر 1 کے شرکاء نے ’’ہماری قومی زبان اُردو کا فروغ کیسے ممکن ہے؟‘‘ کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کے کوآرڈی نیٹر پروفیسر رضوان الحق تھے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پر سفارشات مرتب کیں کہ اُردو کو ذریعہ تعلیم قرار دیا جائے۔ اُردو کی ترویج سے 1973ء کے آئین کا تقاضا پورا کیا جائے۔ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کی طرح اُردو کو بھی بی اے تک لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے۔ سائنسی مضامین کو اُردو میں منتقل کرنے کیلئے تراجم ہائوس قائم کئے جائیں۔ مدارس میں عصری ادبی سرگرمیوں کو مزید فروغ دینے کا اہتمام کیا جائے۔ انگریزی مضمون کی لازمی حیثیت ختم کر کے اسے اختیاری مضمون قرار دیا جائے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق پرائمری سطح تک بچوں کو انکی مادری زبان میں تعلیم دی جائے اور پہلی جماعت سے انگریزی کی لازمی حیثیت ختم کی جائے۔ سائنسی مضامین کا نصاب اُردو میں بھی تیار کرایا جائے اور طلبا و طالبات کو اُردو میں بھی سائنسی مضامین کا امتحان دینے کی اجازت دینی چاہئے۔ اُردو کے نفاذ کیلئے ایک وسیع تر عوامی تحریک چلائی جائے۔ تمام سرکاری دفاتر اور عمارات کے بورڈ اُردو میں لکھے جائیں۔ پورے ملک میں ہر سطح کے مقابلے کے تمام امتحانات انگریزی کی بجائے اُردو میں لئے جائیں۔ جسٹس (ر) منیر احمد مغل کی زیرصدارت گروپ نمبر 2 کے شرکاء نے ’’پاکستان میں اسلامی و اخلاقی اعلیٰ اقدار کی ترویج و اشاعت میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر گروہی مباحثہ میں حصہ لیا۔ اس گروپ کی کوآرڈی نیٹر رفیعہ ناہید اکرام تھیں۔ اس مباحثہ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ خواتین بالخصوص ورکنگ خواتین پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم اپنے بچوں اور طلبا و طالبات کی اخلاقی تربیت ہے تاکہ وہ مستقبل کے اچھے شہری ثابت ہوں۔ اس کیلئے انہیں حالاتِ حاظرہ سے باخبر رکھنا چاہئے۔ اعلیٰ تعلیم اور معلومات دینا بھی لازم ہے۔ انہیں احساس دلایا جائے دین اور قومی پس منظر کے بارے میں احساسِ تفاخر لازم ہے۔ غیرملکی بالخصوص بھارتی ثقافت سے دور رکھنے کیلئے الیکٹرانک میڈیا میں بچوں کی دلچسپی کے اخلاقی پروگرام پیش کئے جائیں۔ تعلیمی نصاب میں دو قومی نظریہ اور اپنے عظیم اسلامی اور قومی ہیروز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ موثر ابواب شامل کئے جائیں۔ بیگم مہناز رفیع کی زیرصدارت ہونیوالے گروپ نمبر 3 کے شرکاء نے ’’خواتین کی تعلیم معاشرے میں انقلاب لایا جا سکتا ہے‘‘ کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کی کوآرڈی نیٹر عظمیٰ صباحت قریشی تھیں، اس گروپ نے متفقہ طور پر سفارشات مرتب کیں، تعلیم یافتہ مائیں بچوں کو درست راستے پر چلا سکتی ہیں۔ انہیں صرف پیسہ کمانے کیلئے جاب نہیں کرنا چاہئے بلکہ عمل کے ذریعے بچوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہئے۔ دیہی ماحول میں عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ کام کرتی ہیں لیکن انکی اس کاوش کو ہمیشہ حقیر سمجھا جاتا ہے۔ کسان عورت کو بھی معاشرے میں اہمیت دینی چاہئے۔ ڈاکٹر اقبال چاولہ کی زیر صدارت گروپ نمبر 4 کے شرکاء نے ’’پاکستان کے اسلامی ممالک سے تعلقات اور عالمی سیاسی منظر نامہ‘‘  کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ گروپ کی کوآرڈینیشن کے فرائض پروفیسر معاذ جانباز نے انجام دیئے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پر سفارشات مرتب کیں۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر بنانی چاہیے۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک کو آپس میں اتحاد رکھنے کی ضرورت ہے جس کا عملی مظاہرہ صرف ایک بار اسلامی سربراہی کانفرنس کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔ خارجہ پالیسی میں تسلسل کیلئے ضروری ہے پاکستان میں جمہوریت کا بھی تسلسل ہو۔ پاکستان کو دلیر قیادت کی ضرورت ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں ایک کرنسی رائج کی جائے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کی زیر صدارت گروپ نمبر 5 کے شرکاء نے ’’موجودہ نصاب تعلیم اور نظریۂ پاکستان کے تقاضے‘‘ کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کے کوآرڈینیٹر پروفیسر مظہر عالم تھے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پر سفارشات مرتب کیں نصاب تعلیم کی ترویج نہیں کی گئی جس کو ازسرنو یقینی بنایا جائے۔ حکومت نے آٹھویں جماعت تک مطالعہ پاکستان کو عملاً ختم کردیا ہے کیونکہ اس مرتبہ مطالعہ پاکستان کا پرچہ ہی نہیں لیا گیا۔ حکومت نے حقیقی معنوں میں نظریاتی تعلیم کو بتدریج ختم کردیا ہے، اسکی طرف توجہ دلائی جائے۔ تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نظریاتی تعلیم دی جائے۔ انجینئر ممتاز احمد خان کی زیر صدارت گروپ نمبر 6 کے شرکا نے ’’بھارت کی آبی جارحیت کے سد باب کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت‘‘ کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کے کوآرڈینیٹر میجر (ر) صدیق ریحان تھے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پر سفارشات مرتب کیں کہ بھارت ہمارے ملک مداخلت کررہا ہے۔ تخریب کاری بھی کررہا ہے لیکن ہم کیوں اسکو Favour دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری قوم کو کالا باغ ڈیم بنانے کیلئے متحد ہوکر کوشش کرنی چاہئے۔ کالا باغ ڈیم بنائو تحریک چلائی جائے۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں ریفرنڈم کرانا چاہئے۔ چھوٹے ڈیمز بنانے چاہئے۔ چودھری نعیم چٹھہ کی زیر صدارت گروپ نمبر7کے شرکاء نے ’’توانائی کا بحران… کیسے حل ہو‘‘ کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کی کوآرڈینیشن کے فرائض پروفیسر شفیق کھوکھر نے انجام دئیے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پریہ سفارشات مرتب کیں کہ کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو فی الفور شروع کیا جائے۔ ملک میں موجود توانائی کے دوسرے وسائل بھی استعمال کئے جائیں جن میں شمسی توانائی‘ کوئلہ کے ذخائر اور ہوائی توانائی کا بھی استعمال کیا جائے۔ توانائی کے استعمال میں بھی کفایت شعاری سے کام لیا جائے۔ موجودہ منگلا ڈیم کی استعداد کار بڑھائی جائے۔ پروفیسر حنیف شاہد کی زیر صدارت گروپ نمبر 8 کے شرکاء نے ’’علامہ اقبالؒ کا تصور وطنیت اور ملت اسلامیہ‘‘ کے موضوع پرگروہی مباحثہ میںحصہ لیا۔ اس گروپ کی کوآرڈینیشن کے فرائض پروفیسر چودھری قدرت علی نے انجام دیئے۔ اس گروپ نے متفقہ طور پر سفارشات مرتب کیں کہ قومی لباس کو فروغ دیا جائے۔ کلامِ اقبال کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کر کے نصاب کا حصّہ بنایا جائے۔ خطاباتِ اقبال سے عام لوگوں کو روشناس کرانے کی سعی کی جائے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری کے ساتھ نثر اقبالؒ کو بھی فروغ دیا جائے۔ علامہ اقبال ؒتالیف کردہ کتب کو دوبارہ شائع کرنے کی سعی کی جائے۔
سفارشات

مزیدخبریں