پرانے وعدے بُھلا کر یارونئے فسانے سُناررہے ہیں
وزیراعظم وہ بن کے اب تو بس اپنے جلوے دکھا رہے ہیں
نہ پوُچھئے کیا سبب ہے اس کا گرانی ہر روز بڑھ رہی ہے
جنہیں ضرورت ہے مال و زر کی وہ ٹیکس ہم پر لگارہے ہیں
غریب سارے وطن میں زندہ رہیں یا پھر خود کشی ہی کرلیں
کہ اب تو اسحاق ڈار صاحب نئے خنجر چلارہے ہیں
کسی ستمگر کی چشم بدمست کے اشارے سمجھ لئے ہیں
اسی لئے تو وہ غیر ملکوں میں دولت اپنی چُھپارہے ہیں
نہ جانے کیا اس کو ہوگیا ہے نہ جانے کیا اس کا مُدعا ہے
ہر ایک محفل میں کیوں یہ ارشد اب اپنی غزلیں سُنارہے ہیں