وزیراعظم اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کے نام

Feb 24, 2015

قرۃ العین فاطمہ

سعودی عرب کیساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے ہیں کیونکہ اسلام اپنی فطرت میں آفاقی ہے اور مسلمان ایک ملت ہیں۔ دین اور نظریاتی اساس ایک ہونے کی وجہ سے تمام مسلمان ملکوں کے آپس میں تعلقات اور محبت فطری بھی ہے اور ضروری بھی لیکن سعودی عرب کے معاملہ میں محبت اور زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہاں خدا کا گھر اور آقا دو جہاں حضور کریم ؐ کا روضہ مبارک ہے۔ بچپن سے کتابوں میں لکھا پڑھتے آئے ہیں کہ سعودی عرب پاکستان کا دوست ملک ہے لیکن جب زمینی حقائق کو دیکھیں تو وہ بہت تلخ ہیں۔ پاکستانیوں کی عقید تیں اپنی جگہ ہیں مگر برادرانہ تعلقات صرف حکومتوں کی حد تک ہیں۔ وگرنہ سعودی عوام پاکستانیوں کو حقارت کی نظر سے نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ انھیں زر خرید غلام بھی سمجھتے ہیں۔ وہاں کے قوانیں اتنے ظالمانہ اور غیر اسلامی ہیں کہ ان پر بات کی جائے تو اکثرعقیدت میں اندھے لوگ فتوے بھی لگا دیں۔ گذشتہ دنوں اخبار کے کسی کونے میں ایک انتہائی غیر اہم خبر کی طرح ایک خبر لگی تھی۔ کہ سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے پاکستانیوں کو گولی سے اڑانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور پاکستانی حکام کو اس سے آگاہ کر دیا گیا۔ اب جناب یہ پاکستانی حکام کیا کرینگے جی حضوری۔ کیوں کے پاکستانیوں کا خون تو پہلے ہی سستا ہے۔ پاکستان میں بھوک افلاس اور بم دھماکوں سے تو مرنا ہی ہے تو سر زمین حجاز میں عرب قوانین کے ہاتھوں گولی کھا کے مریں ، جیلوں میں گلیں سڑیں یا پھر کفیل کے ہاتھوں تشدد سے اور زیادہ کام کی وجہ سے مریں۔ جناب جنت میں جانے کا آسان نسخہ ہے۔ تیس ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی کہہ کے ڈی پورٹ کر دیا گیا اور پاکستانی حکام بالا نے سر جھکائے تسلیم کر لیا۔ پاکستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ جو لوگ ان پڑھ ہیں ان کیلئے یہ ایک سنہری موقع ہوتا ہے کہ وہ بیرون ملک جا کر کوئی بھی کام کریں تاکہ انکے گھروں میں آسودگی ہو۔ یہ سادہ لوح مفت میں سعودی عرب نہیں جاتے۔ ان کو لے جانیوالے ایجنٹ اور سعودی کفیل اس کاروبار میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ سادہ لوح اپنی ساری عمر کی کمائی ان ایجنٹوں کے ہاتھوں میں دیتے ہیں۔ تمام پروسیس سے نابلد اور عربی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں جا کر کفیل ان لوگوں کیساتھ خریدے ہوئے غلاموں سا سلوک کرتے ہیں۔ یہاں تک کے اپنی مرضی سے کفیل بھی نہیں بدل سکتے۔ سعودی قانون کیمطابق کوئی بھی ملازم اپنے کفیل سے جھگڑا کرتا یہاں تک کے حق بھی مانگتا ہے تو کفیل اسکو جیل بھجوا سکتا ہے۔ اس وقت چار ہزار پاکستانی سعودی عرب میں اپنی رہائی کے منتظر ہیں۔ جن کی حالت ایسی ہے کی انھیں دو وقت کی روٹی بھی نہیں دی جاتی۔ دفتر خارجہ کیمطابق انکی تعداد تین سواور انٹرنیشنل میڈیا کیمطابق چار ہزار ہے۔ غیر ملکیوں کیلئے نئے قوانین بنانے کے بعد ہزاروں پاکستانیوں کو ملک بدر اور ہزاروں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس ظالم قانون کے تحت اقاموں کی تجدید بھی نہیں کی جا سکتی۔ وہ سعودی کمپنیز جن کو ریڈ الرٹس جاری کیے گئے ہیں انکو اس نئے قانون کے تحت غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا۔اور اس میں کام کرنیوالے تمام ورکرز بھی غیر قانونی قرار دے دیئے جائینگے۔ جن کمپنیز کو اجازت دی گئی ہے کام کرنے کی انکے کفیل ویزہ کی معیاد بڑھانے کیلئے بیس ہزار ریال مانگ رہے ہیں جو کہ غریب ورکرز کیلئے ایک بہت بڑی رقم ہے۔ مگر ہمارے ارباب اختیارنے چپ سادھ لی ہے۔ ان قوانین میں سراسر غلطی سعودی حکومت اور انکے کفیلوں کی ہے۔ سعودیہ سے نکل کر اسلام پوری دنیا میں پھیل گیا مگر سعودیہ والوں نے غلامی کو جدید طریقوں اور قوانین میں ڈھال کے اپنی روش کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ کفیل بنانے کا نظام سراسر سودی نظام ہے۔ کہ کفیل گھر بیٹھے دوسرے کی محنت کو نہ صرف ہضم کرتا ہے بلکہ اس میں سے اپنی مرضی سے ان ورکرز کو تنخواہ دیتا۔ اصول کیمطابق تو گولی مارنے کا حکم ان کفیلوں کو ہونا چاہیے کہ وہ اقاموں کی تجدید کیلئے اتنی رشوت مانگ رہے ہیں۔ جو ورکرز کو دھوکے سے لے جا کر پتھر کوٹنے جیسے کاموں پر لگا دیتے ہیں۔ اور ذرا سی غلطی میں جیل میں بھجوا دیتے ہیں۔ یا ان کو غیر قانونی طریقوں سے لیکر جاتے ہیں۔ اس میں سادہ لوح اور معصوم پاکستانیوں کا کیا قصور۔ ارباب اختیارآئے روز عمرے پر عمرہ کرنے تو چلے جاتے ہیں کیا انھیں یہ سب حالات نظر نہیں آتے ؟ کہاں ہیں وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جو فلسطین اور کشمیر میں ہونیوالے مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہوتی ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر یہ تنظیمیں کیوں خاموش ہیں کیا انھیں جیلوں میں جلنے والے ہم وطنوں کے معصوم بچے اور بچیاں نظر نہیں آتے ؟ انکے تڑپتے بوڑھے کمزور والدین نظر نہیں آتے ؟ کیا ان پر ڈھائے جانیوالے دوست برادر ملک کے مظالم نہیں دکھائی دیتے، ہزاروں پاکستانی جیلوں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تو کسی کو پرواہ بھی نہیں۔حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کو پاکستان میں روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتی تو ان پاکستانیوں کی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے مستقل بنیادوں پر اپنی کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں۔ اگر سعودیہ میں موجود ایمبیسی وہاں مقیم پاکستانیوں کے مسائل حل نہیں کر سکتی تو اس کو بند کر کے قوم کا پیسہ بچایا جائے۔ قانون کیمطابق اپنے شہریوں کی جان مال کے تحفظ اندرون ملک یا بیرون ملک کو یقینی بنائیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار اپنے ہم وطنوں کیلئے آواز اْٹھائیں۔

مزیدخبریں