کہتے ہیں لفظوں کے اوزان ناپنے کا پیمانہ ان کی ہیت و ساخت نہیں بلکہ اس زبان کی طاقت ہے جس سے وہ ادا ہوں، اب جو وائٹ ہائوس میں انسداد دہشت گردی سے متعلق کانفرنس میں امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہہ دیا کہ انکی جنگ اسلامی تعلیمات سے بھٹکے ہوئوں سے ہے۔ گویا سمجھنا مشکل نہیں کہ اب خطے کی صورت حال بہتر کرنا ہے تو ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں کے مصداق سر تسلیم خم کرنا ہی ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کو اپنے چارٹر پر نگاہ ڈالنا ہو گی۔ کہ وہ دہشت گردی کی اصلاح و دائرہ کار کے حوالے سے وضاحتیں اور تبدیلیاں واضع کرے اقوام عالم کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے عوام میں ابلاغی سطح، سوچ و فکر کا انداز ایک سا نہیں!! کئی کالعدم تنظیمیں نام بدل کر پاکستان میں فعال ہیں، لیکن پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ان تنظیموں کے خلاف ایک سی پالیسی کے تحت کارروائی کرنے میں کوئی ’’رائے نہیں۔ ہمیں آتش فشاں کے دھانے پر کھڑے ہو کر کم سے کم اب ذاتی مقاصد کو پس پشت ڈال کر ان تمام چہروں کو بے نقاب کرنا ہو گا جو گرکٹ کی طرح رنگ بدلنے کا کمال رکھتے ہیں ہو سکتا ہے۔ شدت دہشت پسندی کی تنظیموں کی مالی و معاونت، بذات خود ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے جس میں بہت سے دوستوں کی موجودگی دشمنوں سے کم نہیں کیونکہ فلاحی کاموں کی آڑ میں پیسے کی فراوانی اس سیل رواں کا آنا جانا بذات خود حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے!! ایسے میں ایف آئی اے کا دہشتگردوں کی فنڈنگ کرنیوالے اکائونٹس کی نشاندہی، امتیازی اداروں کیلئے کھلا چیلنج ہے کیونکہ یہی وہ مقام ہے جب ملزمان کے گریبانوں تک پہنچے ہاتھوں کو سفارش مافیا ساکت کر دیتی ہے اور ہم فوجی و سول عدالتوں کی بحث میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگر عدالتیں پیشوں اور تاریخوں کے گھن چکر میں رہیں گی تو جھوٹ سچ کا نتارا کیسے ہو گا؟ دوسری طرف اپنے وزیراعظم میاں نوازشریف کی صوبہ صوبہ گردش نوردی کو دیکھیں تو انتظامی بہتری کی کچہریوں میں سیاسی و فوجی حکام کی موجودگی اور انتظامی حکام کی غیر حاضری ظاہری پھرتیوں کی چغلی کھاتی ہے۔ پچھلے تیس سالوں میں فرقہ وارانہ شدت کے آلائو میں تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کو ایندھن کی طرح جھونکا گیا۔ شروع میں امدادی رقوم کے سونے چاندی کے سکوں نے انسانی چیخوں کو بے حسی کی گہری کھائیوں سے نکلنے ہی نہ دیا۔ لیکن جوں جوں زخم ناسور بنے سوچ کے نئے زاویوں نے اپنے در کھولنے شروع کئے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ شعور و ادراک کو صحیح و مثبت راہ پر ڈالنے اور دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے خطے کے لوگوں کی فیملی سطح اور شدت پسندوں کی ذہنیت و طریقہ کار کو سمجھنے کیلئے راست اقدامات اٹھائے جائیں انکے بغیر شدت پسندی کی جنگ کو شکست دینا خام خیالی ثابت ہو گی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ غربت میں اضافے نے احساس محرومی کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی اور بڑھ کر کر چھین لینے کے جذبوں کو جنم دیا۔ ابن الوقت غرض مندوں نے عوامی غصے اور مایوسی کے جذبوں کو ابھار کر ہمدردیاں سمیٹیں ، وصال صنم میں مات کھانے والوں کو خدا ملنے کی چاہ میں حوروں کی موٹی موٹی آنکھوں کے خواب راستے کے منظر دکھانا اور پھر خود کو فنا کرنے کے ساتھ ساتھ بے شمار خدا کے بندوں کے جسموں سے سانسیں جدا کر دینا ایک بہشتی کھیل بن گیا۔ حقیقی سطح پر تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں فرقہ واریت کے فروغ میں معاشرتی ناانصافیوں کا کردار ناقابل تردید ہے۔عسکری قوتوں نے طاقت کے توازن کو درست رکھنے کیلئے چین سے دیر تک مصافحہ کرتے ہوئے یہ بھی عیاں کر دیا کہ پاکستان کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ اندرونی منافقوں، ابن الوقتوں اور مفاد پرستوں سے مستقل خطرہ ہے، جو پاکستان میں ترقی یافتہ علاقوں کو مزید ترقی یافتہ بناتے چلے جا رہے ہیں اور پسماندہ علاقوں کو پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل کر احساس محرومی کی دلدل میں دھنساتے چلے جا رہے ہیں۔ لوہے کے کاروباریوں کو شاید معلوم نہیں کہ دنیا ایک جڑ سے دو پھل لینے کا تجربہ کر رہی ہے ایسے معدنیات سے بھرے علاقوں اور تیل کی دھار پر بیٹھے لوگوں کو افلاس کا پتھر زیادہ دیر تک چٹانے میں مبتلا رکھنا شاید اسکے بس میں نہ رہے شعور و انتشار کی تمام تر انتہائیں پیٹ کے اندر کی شدت آگ سے جڑی ہیں ایسے میں فوج کو مستقل طور پر ایسے علاقوں میں نبرد آزما رکھنے سے محبت و اخوت کی زرخیز زمین بھی بنجر ہو سکتی ہے، یہ تو ’’رج مستی‘‘ سے سرشاروں کو معلوم ہی ہو گا کہ مسائل کاحل وسائل کی برابر تقسیم اور سہولیات کی برابر فراہمی ہی میں پوشیدہ ہے۔تعلیمی، معاشی برابری ہی معاشرے کی رواداری و اخلاص کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ یقین کیجئے روزگار کاحصول اور دسترس میں انصاف ہی ملک میںبین الصوبائی فاصلوں اور دوریوں کو سمیٹ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا! شریفوں کو لاکھ سمجھائیں۔ وہ کرتے وہی ہیں جو ان کے ’’سیدھے سادھے‘‘ ذہن میں آئے یا پھر ان کے من کو بھائے۔ شیرشاہ سوری کی پیروی انہیں بھاتی ہے۔ اسی لئے رابطوں کی آسانیوں کو روشنیوں کے تسلسل کی وجہ سمجھتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بُری بات بھی نہیں‘ لیکن ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بڑے شہروں کے بغلی بچے کیوں آباد نہیں کرتے۔ چھوٹے شہروں میں تعلیمی‘ معاشی اور صحت کی سہولیات ان کیلئے سرمایہ فخر ہو سکتا ہے ورنہ لوگوں کا احساس محرومی کہیں ان کیلئے احساس ندامت نہ بن جائے کیونکہ ان کی بصارتیں دیکھ رہی ہیں اور سماعتیں سن رہی ہیں کہ فاٹا جیسے پسماندہ علاقوں میں سنیٹرز کے ووٹ کیلئے بولیاں پچیس کروڑ سے چالیس کروڑ تک لگ چکیں۔ اتنے مہنگے داموں خریداری کے بعد تو دل و انصاف اور رفاہ عامہ اہل ثروت کے گھر کی لونڈی یا حکم کے غلام ہی ہو سکتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی جیسے تیس سال تک پاکستان بڑی طاقتوں کی غلامی اور بھیک منگی کو بھگتتا رہا ہے۔ تو صاحبو! پھر غلاموں کا کیا ہے ان کے ہاتھ میں بارود تھما دیا جائے یا جنت کے دروازے کی کنجی!!!
حکم کے غلام
Feb 24, 2015