کورم ٹوٹنے پر حکومتی ارکان کی ’’سیاسی ڈکشنری‘‘ میں شرمندگی دکھائی نہ دی

پارلیمانی جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’مناقشت‘‘ جمہوری نظام کا حسن ہوتا ہے لیکن پا کستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے ،اپوزیشن دن کے اجالے میں حکومت پر برستی ہے اور رات کے اندھیرے میں ’’مک مکا ‘‘کر لیتی ہے اور پھر اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لئے حکومت کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ،اپنے آپ کو ’’حقیقی اپوزیشن‘‘ ثابت کر نے کے لیے اسے خواہ اپنی درخواست پر طلب کردہ اجلاس کے کورم کی نشاندہی کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرتی ۔ چونکہ اپوزیشن کا واسطہ ایک ایسی حکومت سے پڑا جس کے ارکان اسمبلی کی سیاسی ڈکشنری میں’’ شرمندگی اور خفت ‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ،کورم کے معاملہ پر بار بار حکومت کو شرمندگی اٹھانے کے باوجود حکومتی ارکان شرمندہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنی اصلاح کرتے ہیں ،اب تو انتہا ہو گئی ہے وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں آمد آمد تھی لیکن اس کے باوجود کورم ٹوٹ گیا، ڈپٹی سپیکر کو دوبارہ اجلاس کی کارروائی چلانے کے لئے نصف گھنٹہ تک حکومتی ارکان کی ایوان میں آمد کا انتظار کرنا پڑا ۔بیشتر حکومتی ارکان محض ’’ شیر‘‘ پر سوار ہو کر ہی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں پہنچے ہیں، ان کو وزیر اعظم محمد نواز شریف کے نام پر ووٹ ملے ہیں بعض ارکان آزاد حیثیت سے انتخاب لڑیں تو اپنی ضمانت ہی ضبط کرا بیٹھیں۔خورشید شاہ نے نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیراعظم کی موجودگی میں ’’مک مکا کی سیاست‘‘ پر اپنی پوزیشن کی وضاحت کریں گے اور وزیر اعظم سے اس کی توثیق کرائیں گے لیکن انہوں نے واک آئوٹ کی آڑ لے کر ایوان میں اپنا کیس لڑنے سے گریز کیا جب کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ہمراہ ایوان میں سید خورشید شاہ کی وضاحتوں کا جواب دینے ہی آئے تھے ،وہ پوری تیاری کر کے آئے تھے چکری کا راجپوت اپنی نشست پر ڈٹا رہا لیکن سکھر کا سید ایوان میں واپس نہیں آیا۔ چوہدری نثار علی خان نے حکومتی ارکان کو آگاہ کر دیا تھا وہ آج پیپلز پارٹی کا چڑھایا ہوا ادھار اتاردیں گے، غالب نے کیا خوب کہا ہے’’ تھی خبر کہ غالب کے اڑیں گے پرزے ،دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا ‘‘ اپوزیشن پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے 11بجکر20منٹ پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی صدارت میں اجلاس میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور کہا ڈپٹی سپیکر پر جانبداری کاالزام عائد کر کے احتجاجاً واک آئوٹ کر دیا ۔ ایوان میں شیم شیم کے نعرے لگائے اور پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رائے حسن نے کورم کی نشاندہی کر دی کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کارروائی نصف گھنٹہ معطل رہی۔اجلاس شروع ہو ا تو نواب یوسف تالپور نے کہا کہ اسمبلی کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہم ڈپٹی سپیکر کے خلاف واک آئوٹ ہو رہے ہیں ، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، ایوان سے پی پی پی ، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی نے تو واک آئوٹ کیا لیکن یہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے منحرف ارکان اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے واک آئوٹ سے الگ تھلگ رہے تاہم ایم کیو ایم نے اپنے قائد الطاف حسین کے بیانات کی اشاعت پر پابندی کے خلاف بھوک ہڑتال کا وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے نوٹس نہ لینے پر ایوان سے واک آئوٹ کیا ،اپوزیشن نے گزشتہ روز صدر سے اظہار تشکر کی قرار داد میں پیپلز پارٹی کی ترمیم پر ووٹنگ کروانے کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر پر جانبداری کا الزام عائد کیا ہے، صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ حکومتی ارکان ایوان کو سنجیدہ نہیں لیتے گزشتہ روز ایوان میں جو کچھ ہوا وہ پارلیمانی روایت کے منافی ہے حکومت کو اس معاملے کو موخر کر دینا چاہیے ۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے اپنی رولنگ کا دفاع کیا، وزیر موسمیاتی تبدیلی زاہد حامد نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو شک تھا تو گنتی دوبارہ کروالیتی،سید خورشید شاہ نے صدر ممنوں حسین اور ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کو متنازعہ قرار دے دیا ، ڈپٹی سپیکر کے جانے کے بعد جب چوہدری بشیر ورک نے مسند صدارت سنبھالی تو اپوزیشن ارکان ایوان واپس آ گئے ۔ شازیہ مری نے کہا کہ لاء کالج کے طلبہ وطالبات کی گیلری میں موجودگی کا اعلان قواعد وضوابط کے منافی ہے۔سپیکر سردار ایاز صادق کی دعوت پر اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے سید خورشید شاہ کی قیادت میں ملاقات کی لیکن یہ ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی اپوزیشن ڈپٹی سپیکر کی صدارت میں اجلاس میں بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔

ای پیپر دی نیشن