پاکستان سُپر لیگ مکمل طورپر کامیاب اور کلرفل شو تھا۔ دنیا میں ٹی وی اور نیٹ پر یہ سب سے زیادہ بھارت میں دیکھا گیا۔ اس پر ہم پاکستانیوں کو اعتراض نہیں بلکہ خوشی اور اطمینان ہے۔ انڈین پاکستان کی کرکٹ میں دلچسپی لیتے ہیں جبکہ اس ملک کے کرتا دھرتا پاکستان میں کھیلوں پر تاریک سائے لہرانے کی سازش کرتے ہیں۔ ایسی سازشوں کی پاداش میں پاکستان سپر لیگ ہزاروں میل دور امارات میں ہوئی۔ جس جذبے سے بھارتیوں نے پی سی ایل میں دلچسپی لی، وہ اپنی حکومت کو پاکستان میں کرکٹ ٹیم بھیجنے پر آمادہ کریں۔ ہمارے شہریار اور نجم سیٹھی کی توانڈین بورڈ اور حکومت نے ایک نہیں مانی مگر یہ بھی دُھن کے پکے ہیں، بے مزہ نہیں ہوئے۔
پی ایس ایل پاکستان میں ہوتی تو کرکٹ کے میدان تماشائیوں سے چھلک چھلک جاتے۔ دبئی اور شارجہ میں سٹیڈیم دوتین بار ہی ہائوس فُل ہوئے۔ دنیا کے کچھ کھلاڑی بھی ہمارے مہمان تھے گو وہ پاکستان نہیں آئے۔ کوئٹہ اور پشاور کی طرف سے کھیلنے والے اپنے ملک کے کھلاڑیوں میں سے بھی کئی نے یہ شہر نہیں دیکھے۔ بہرحال یہ ایک اچھا تجربہ تھا۔ اکثر پاکستانیوں نے یہ ٹورنامنٹ انجوائے کیا گو اس لیگ کو ایک خاص ذہنیت کے لوگوں نے متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ کہاگیا، ہر میچ فکس ہوتا ہے۔ ایک چینل والے ایک بکئے کو لے آئے۔ اس نے کہا ، زلمی گلیڈی ایٹر سے ہار جائے گی۔ گلیڈی ایٹرنے 133 سکور کیا،اس موقع پر کوئی زلمی کی شکست کا سوچ بھی نہیں سکتا تھاتاہم بُکیا مُصررہا۔زلمی جب ایک سکور سے آخری گیندپر ہاری تو بکئے کے دعوے پر بہت سے لوگوں کو یقین کرنا پڑا۔ اسی بکئے نے کہا تھا کہ یہ بھی فکس ہوچکا ہے کہ زلمی اگلا میچ جیتے گی اور فائنل بھی اسی کے نام رہے گا۔ مگر زلمی اگلا میچ ہار گئی جس سے بکئے کا دعویٰ باطل ثابت ہوگیا۔ ایسے لوگوں کے کرتوتوں کی طرح ان کے چہرے بھی کالے کرنے کی ضرورت ہے۔
پی ایس ایل شروع ہوئی تو لوئر سکور کی وجہ سے اس پر سلو لیگ یا سست لیگ کا ٹھپہ بھی لگا۔ تاہم بعد میں اس میں تیزی آگئی۔ لاہور قلندر نے 10 اوورز میںریکارڈ سو رنز بنا دیئے۔ اسی میچ میں دو سو سے زائد سکور بھی بنا۔ مدمقابل کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے 8 اوورز میں 100 رنز بنائے اور میچ بھی جیت لیا۔ اس میچ میں اظہر علی کی کپتانی قلندروں کو لے ڈوبی۔ آخری اوور سپنر سے کروانے کے فیصلے پر اس ٹیم کے کوچ اور اونر نے بھی سر پکڑ لیا ہوگا۔ البتہ مخالف ٹیم اور کریز پر موجود جوڑی کے دل میں لڈو ضرور پھوٹے۔ اظہر علی ماشاء اللہ قومی ٹیم کے کپتان ہیں اگر گیلانی، پرویز اشرف اور نواز شریف ملک چلا سکتے ہیں تو اظہر علی قومی ٹیم کو کیوں نہیں کھِلا سکتے۔
کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے پاکستانی پی ایس ایل سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ کسی کا کسی ٹیم کے لئے کوئی تعصب نہیں تھا، محبت ہر ٹیم سے تھی۔ وکٹ گرنے پربائولر کو داد، چوکے چھکے پر بلے باز کو خراج ملتا رہا۔ یہ بہرحال اپنی عادت ہے کہ مرضی کے مطابق کھلاڑی پرفارم نہ کررہا ہو تو کہہ دیا جاتا ہے ’’اس نے پیسے لئے ہیں۔‘‘
کرکٹ کے شائقین پی ایس ایل کی رنگینیوں میں کھوئے رہے۔ پس پردہ کیا ہوا، کس نے کیاکمایا،کیا کھایا، اس سے پردہ جلد اٹھنے والا ہے۔ ایسی ہی رنگینیاں اور تفریح پنجاب سپورٹس فیسٹیول میں بھی نظر آئی۔ اس میں کرپشن کے پرت ایک عرصہ بعد کھلے تھے۔ اس میں رانا مشہود ملوث قرار دیئے جارہے ہیں۔ اگر نیب کے پر کاٹ اور ناخن تراش دیئے گئے تو ستے خیراں، دوسری صورت میں ہمارے کچھ صحافی بھائیوں کے ساتھ بھی ’’آٹھوآٹھ‘‘ ہوتی نظر آئے گی، کچھ جیل اور کچھ خوف کے باعث ہسپتال میں ہوں گے۔لُٹیرا کوئی بھی ہو قدرت اسے بیماری سے بچائے اور جیل پہنچائے۔
پرویز رشید کہتے ہیں کہ اگر کسی ادارے کے ناخن بڑھ جائیں تو تراشنا پڑتے ہیں۔ نواز شریف، پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ کو کیسے پتہ چلا کہ نیب کے ناخن بڑھ گئے ہیں اور اتنے بڑھے ہیں کہ ان کو تراشنا پڑے گا۔ پرویز رشید نے وثوق سے ناخن تراشنے کا دعویٰ پیپلز پارٹی اور متحدہ کی طرف سے تعاون کی یقین جیسی امید پر کیا جس کی ہر دو نے یقین دہانی نہیں کرائی تھی کیونکہ خورشید نے کہا عوام نیب قوانین میں ترمیم کی حمایت کرنے والوں کو چور کہیں گے۔ خورشید شاہ لگے ہاتھ یہ بھی بتا دیتے جو ترمیم اور احتساب کمیشن کے قیام کے لئے کمربستہ ہیں لوگ ان کوکیا کہیں گے۔یہ نہ ہو کہ خورشید شاہ کا یہ بیان ہاتھی کے دانتوں کی طرح محض دکھانے کیلئے ہو۔نیب کے ناخن کیوں بڑھے، اس کی کسی حد تک وضاحت خورشید شاہ نے کی ہے۔’’جب نیب نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو ’’کسی طرف‘‘ سے نیب کو کہا گیا ہوگا سابق آرمی چیف کا احتساب ہوگا تو پھر کسی کو نہ چھوڑا جائے جس کے بعد نیب نے کچھ دوسرے اقدامات کرنے شروع کئے تو جھگڑا کھڑا ہوگیا۔‘‘
نیب اور ایف آئی اے میں ایماندار لوگوں کی شرح پولیس سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ اپنا اپنا ترازو ہے جن کے نزدیک پولیس صد فی صد دیانتدار ہے تو ان کے لئے نیب بھی ایسے ہی ہوگی۔ شکنجے کی بات کریں تو نیب کا شکنجہ سب سے زیادہ کڑا ہے۔ اس کے زیرِ حراست لوگ التجا اوردعا کرتے ہیں ، ان کو جیل بھجوا دیا جائے یا حوالہ پولیس کردیا جائے۔ عقاب کی بُڑھاپے میں چونچ ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ وہ کچھ بھی کھانے سے قاصر ہوکر چل بستا ہے۔ کچھ عقاب پتھر پر ’’ٹھونگا‘‘ مار کر ٹیڑھا حصہ گرا دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ نیب کی چونچ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ٹیڑھی ہوئی جس سے اس کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی۔ اس کی حیثیت محاذِ جنگ پر بیمار سپاہی سے زیادہ نہیں رہی۔ اب‘‘ کسی وجہ‘‘ سے اس کی ٹیڑھی چونچ گرگئی ہے۔ ایمانداری سے کام کرے تو اس کے پنجے کی گرفت عقاب سے کم نہیں جو کم از کم اگلے 9 ماہ تو اسی طرح مضبوط رہیں گے ۔ ہم عوام اور سیاسی کارکن ایک لمحے کے لئے اپنی سیاسی ہمدردیاں ایک طرف رکھ کر صرف پاکستانی بن کر سوچیں اورسپورٹ کریں،کرپٹ شخص کتنا ہی بڑا ہو، اس کے خلاف بے رحمانہ کارروائی کی جائے۔ آپ کے معاشی اور معاشرتی مسائل، محرومیوں اور دکھوں کے یہی کرپٹ لوگ ذمہ دار ہیں۔یہ کسی رو رعایت اور ہمدردی کے حقدار ہر گز ہر گز نہیں ہیں،۔
سپر لیگ اور نیب کی عقابی چونچ
Feb 24, 2016