ہندودیو مالامیں جالندھر نامی ایک ایسا افسانوی شیطان بادشاہ گزرا ہے جو معصوم عورتوں کے خاوند کا روپ دھار لیتا اور اُنہیں زیادتی کانشانہ بناتا- بھارتی شہر جالندھر اُسی کے نام پر ہے- انفرادی چیخیں دم توڑ کر رہ جاتیں لیکن شکایت بڑھنے پر عوام نے ہندو بھگوان وشنو کی مدد حاصل کی- بادشاہ ناقابلِ تسخیر تھا جس کی واحد وجہ اس کی اپنی بیوی کی پاکیزگی تھی جس کو توڑ کر ہی جالندھر کو ہلاک کیا جاسکتا تھا- وشنو نے جالندھر کا روپ دھارتے اسکی وفا کو تسخیر کرلیا جس پرجالندھر کی شکتی جاتی رہی اور وشنو نے اسے قتل کر دیا تاہم اسکی بیوی نے وشنو کو اپنی آہ سے پتھر بنا دیا اور خود اپنے خاوند جالندھر کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہوگئی جہاں سے ستی کی رسم کا آغاز ہوا- اسکی بیوی اور وشنو اگلے جنم میں تلسی کے درخت اور پتھر کے روپ میں نیک قوتوں کی علامت کے طور پر دوبارہ نمودار ہوئے - تاریخ معصوم لوگوں کیساتھ زیادتیوں سے بھری پڑی ہے جنکی چیخ وپکار کبھی بلند و بانگ قلعوں اور کبھی مندروں کی گھنٹیوں کے شور میں دب کر رہ گئی- آہیں تب رنگ لائیںجب راون نے رام کی سیتا پر ہاتھ ڈالا اور وہ اسکی بازیابی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے- پچھلے دنوں ایک بھارتی عدالت میں رام کیخلاف سیتاسے پاکیزگی کا ثبوت مانگنے اور اس پر تہمت لگانے پر ہتکِ عزت کا دعوی دائر ہو اجو خارج ہوگیا-1999میں پاس کردہ نیب آرڈیننس کو اسفندیار ولی جیسے لوگوں نے کبھی ڈریکونین قانون کہا اور کبھی بینظیر شہید نے کینگرو سے مماثلت دیتے عدالتوں کو مارشل لاء کی پوٹلی میں تحفظ لئے کینگرو کورٹس کہا- نیب کے اوائل میں پہلی مرتبہ کئی جالندھروں کی طرف بڑھتے ہاتھ دیکھ کر عوام خوش ہوئے- جنرل امجد وشنو بن کر سامنے آئے لیکن پھر اچانک سیاسی مصالحتیں نمودار ہونا شروع ہوگئیں- رام تیری گنگا میلی ہوگئی پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے، وہ جن کے بارے میں محض کرپٹ ہونے کی شہرت رکھنے پر مقدمات قائم کرنے کا کہا جاتا تھا وہی راتوں رات پریس کانفرنسوں کے ذریعے حکومتی جماعت میں شمولیت کا اعلان کرتے دکھائی دیئے- اور پھر انکوائریاں بند کرنے کا حکم ملتا - نیب زدہ ، نیب زادے کہلائے اور وزارتیں انکا مقدر بنیں- لوگ نیب کیسز کو بطور اسٹیٹس سمبل گردانتے اور حوالہ دیتے فخر محسوس کرتے کہ انکے عزیز پر نیب کا کیس ہے - گھروں سے منوں سونے کے ذخائر اور لاکروں سے کروڑوں ڈالرز برآمد ہوتے لیکن سبق یاد کرتے کئی افسرCompetency Victimبنے اورچھٹی نہ ملنے پر تھری اسٹار ، ترقیاں اور سول ایوارڈز کے مستحق قرارپانے کی بجائے کیریئر ہی تباہ کربیٹھے -
علامہ احسان الہی ظہیر کہتے کہ تمہاری بستی میں ہو تو ثواب اور ہماری بستی میں ہو تو گناہ! NROجیسے قوانین نے اتنے پاپ دھوئے کہ بھگوانوں کی گنگا ہی میلی ہوگئی، سپریم کورٹ بھی بِلک اٹھی حتی کہ آج بھی 150 بڑے کیسز کی بجلی گرجتی چمکتی دکھائی دیتی ہے- فضاء اور سرکاری دفتروں میں ہوکا عالم ہے- شریف اور کمزور انکوائری کیلئے پیش ہونے پر اہل ِ خانہ کو سورہ یٰسین کا ورد کرنے کی تلقین کرتے ہیں - نیب اصلاح کی طرف مائل ہے- کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی اصلاح کی گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے جسے کھلے دل سے تسلیم کرنے پر ہی پیداواری نتائج حاصل کیئے جاسکتے ہیں- اینٹی کرپشن اسٹریٹیجی مرتب ہوئی اور قانون میں مناسب تبدیلیاں لائی گئیں تاہم اب بھی چند ناگزیر اصلاحات کا کیا جانا نیب اور ریاست کے اپنے مفاد میں ہے - نیب صرف کبیرہ کرپشن کا احاطہ کرے جبکہ 18ویں ترمیم کے تحت صغیرہ کرپشن صوبوں کو سونپ دے: پارلیمنٹیرین ، بڑے تاجران کیلئے زیرو برداشت جبکہ درمیانہ اور ادنیٰ درجے کے اہلکاران کیلئے 0.9 برداشت اختیار کی جائے : بڑے معاشی منصوبوں کے فروغ سے متصادم قوانین میںنرمی کرتے معیشت کے پہئے کو جام ہونے سے بچایا جائے- آرڈیننس کی دفعہ 33Bجو حکومتی اداروں کو 50ملین تک کے منصوبوں کی اطلاع نیب کو فراہم کرنے کی پابند کرتی ہے میں ضروری تبدیلی لائی جائے: رشوت دیکر حق حاصل کرنے کی مجبوری سے عام آدمی کو نجات دلائی جائے : گریڈ 1تا19 کے افسران اور ایک مختص کردہ رقم کیلئے نیب عدالتوں کو ضمانت لینے یا خارج کرنے کا اختیار دیا جائے- نیب افسران کے سرکاری دفاتر میں جاکر ریکارڈ اٹھانے کو مجاز عدالت کی طرف سے اجازت نامے سے منسلک کیا جائے: دفعہ 26کے تحت سلطانی گواہ اور معافی کے ذریعے جھوٹی سچی گواہی حاصل کرکے مقدمات کی تکمیل کی حوصلہ شکنی کی جائے :نیب عدالت کو متوازن اختیارات کے ذریعے آزاد اور خودمختار بناتے اسے کینگرو تصور سے نجاب دلائی جائے: پلی بارگین جو لوٹی ہوئی رقم کی برآمدگی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے کی کارروائی کو شفاف بنایا جائے تاکہ نہ کوئی مجرم بچ سکے اور نہ کوئی بے گناہ خوف اور ضابطے کی سختی سے جاں بخشی کیلئے رقم جمع کرواپائے- دفعہ 25(a) اور 25(b)جو چیئرمین نیب کو والینٹری ریٹرن (VR)اور پلی بارگین (PB)کی منظوری کا اختیار دیتی ہیں کو محض کارروائی کی بجائے حقیقی اور حتمی عدالتی Concurence سے منسلک کیا جائے جس سے متنازعہ پلی بارگین کی صحت اور دبائو کو خارج از امکان کیا جاسکتاہے: دفعہ 36میں تبدیلی کے ذریعے ملزم کے ٹرائل یا انکوائری میں بے گناہ ثابت ہونے پر مالی اور اخلاقی تلافی کی جائے: دفعہ 24کے تحت ثبوت کے بغیر گرفتاری کے اختیار کو ضابطہ فوجداری کی طرز پرملزم کیخلاف معقول شہاد ت پر گرفتاری سے ہم آہنگ کیا جائے - 90دن کے ریمانڈ میں مناسب تبدیلی کی جائے-
چچا غالب کی طرح کمزور آدمی بھی محبوب کی محفل میں کافی دور بیٹھا دکھائی دیتا ہے جہاں تک پہنچتے جام ہی ختم ہوجاتا ہے- لیکن کبھی جام اس تک پہنچتا دکھائی دیتا ہے- خدا کرے کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میںاور وہ کوئی حقیقی وشنو بن کر سامنے آئے-
مجھ تک کب اُن کی بزم میں آتا تھا دورِ جام!
Feb 24, 2016