جمہوریت کی بنیاد اس امر پر ہے کہ حکومت عوام کی طرف سے تشکیل دی جائے، یعنی وہ عوام کے منتخب شدہ نمائندوں پر مشتمل ہو۔ اس طرح عوامی نمائندے عوام کی طرف سے حکومت چلاتے ہیں اورتمام حکومتی فیصلوں، پالیسیوں اور قانون سازی وغیرہ میں عوام کی مرضی اور رائے شامل ہوتی ہے۔ ایک سیاسی جماعت کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کی طرف سے منتخب ہو کر ایوان میں پہنچے اور رائے عامہ کے تحت کاروبار حکومت چلائے اور وہ عوام کی خواہشات، میلانات، رجحانات اور رائے ہی کی نمائندگی کرتی ہے۔ چنانچہ ایک سیاسی جماعت کا بنیادی مقصد جمہوری اقدار و روایات کو معاشرے میں رواں دواں رکھنا ہے۔
جمہوریت کی موجودگی اور فروغ کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی معاشرے میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجودہوں، کیونکہ اگرصرف ایک سیاسی جماعت ہو تو وہ اپنی مرضی پورے معاشرے پر تھوپ کر ڈکٹیٹر بن جاتی ہے۔جمہوری نظام چلانے کیلئے سیاسی جماعتوں کی موجودگی ضروری ہے۔ ایسا نظام جس میں سیاسی جماعتوں کا عمل دخل نہ ہو، جمہوری نظام کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ جمہوریت میں اقتدار کا سرچشمہ عوام کو تصور کیا جاتا ہے اور حکومت عوام کے منتخب شدہ نمائندوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔
کسی ملک کے سارے عوام ہمیشہ یک رائے نہیں ہوتے وہ مختلف نظریات، عقائد اور رجحانات کے حامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سیاسی معاشرے میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں جو عوام کے مختلف طبقوں اور مختلف نظریات کے حامل گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔جمہوری نظام حکومت میںبالعموم دو گروہ شامل ہوتے ہیں، یعنی حزب اقتدار اورحزب مخالف۔سیاسی جماعتوں کی موجودگی کے بغیر جمہوری نظام حکومت چلانا ناممکن ہے۔
سیاسی جماعتیں عوام کی سیاسی تربیت کرتی ہیں اور ان میں سیاسی بصیرت، سیاسی شعور اور سیاسی نظریات پیدا کرتی ہیں۔ گویا یہ سیاست کا ایک سکول یا مکتب فکر ہوتی ہیں اور ان کی موجودگی کے بغیر عوام سیاسی تربیت سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے۔سیاسی جماعتیں ہمیشہ جمہوریت کی علمبردار ہوتی ہیں اور ڈکٹیٹر شپ کا راستہ روکتی ہیں،اس لیے جمہوری عمل جاری رہنے کیلئے سیاسی جماعتوں کی اشد ضرورت ہے۔
اگر حکومت کسی وقت عوام کیخلاف کوئی پالیسی اختیار کرے یا عوام کی مرضی کیخلاف کوئی قانون سازی کرے تو سیاسی جماعتیں اس پر احتجاج کرتی ہیں۔ اس طرح حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔
مولانا مودودی کے نزدیک مسلمان ایک جماعت (Party) ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ جماعت ’’سیاسی پارٹی‘‘ کہلا سکتی ہے؟ اس ضمن میں علماء کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ مولانامودودی نے اسلام اور سیاست کو لازم و ملزوم ثابت کیا ہے۔
علامہ اقبال نے بھی کہا ہے:
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مسلم مفکرین مثلاََ امام غزالی، ابن رشد اور ابن خلدون وغیرہ کے ہاں سیاسی جماعتوں کا تصور موجود ہے۔امام غزالی کا کہنا ہے کہ ’’زندگی کا مقصد ہم خیال افراد کا ایک نقطہ پر متفق ہو کر گزارناہے‘‘ اس نکتہ نظر کے تحت ہم خیال افراد کا گروہ، جماعت یا پارٹی کی صورت اختیار کرے گا اور اگر افراد کا یہ گروہ کسی سیاسی نظریہ پر متفق ہو تو وہ سیاسی جماعت کہلائے گا۔ ابن رشد کا کہنا ہے کہ ’’کاروبار حکومت چلانا صرف ایک ہی خاندان کے افراد کا حق نہیں بلکہ یہ معاشرہ کی ایک امانت اور پیشکش ہے تا کہ وہ معاشرہ کی بہتری اور خوشحالی کیلئے مناسب اقدامات کر سکیں‘‘ چناں چہ حکمران پر لازم ہے کہ وہ معاشرے کے سرکردہ افراد کے حلقوں سے رابطہ رکھے تا کہ حکومت کا انتظام معاشرہ کی مرضی کے مطابق ان کے مفاد میں جاری رکھا جا سکے۔
معروف دانشور، رائٹراور سکالر رانا احتشام ربانی کا کہنا ہے کہ انسانیت ارتقائی سفر ہے، جمہوریت ارتقائی عمل ہے۔ سیاست عوام کی بے لوث خدمت اور عبادت ہے۔ جمہوریت کو سزا نہ دو اسے تسلسل سے چلنے دو۔ عوام کو اپنے نمائندوں کے کردار اور خدمت کو دیکھنے دو۔ اگر کوئی لٹیرے ہیں تو پردے اٹھنے دو۔ کسی کو بے قصوری کا بہانہ بنانے کا موقع نہ دو۔ کھرا یا کھوٹا مخلص یا مفاد پرست، وقت ہی پہچان کرائے گا۔ عوام کو سیاست کی دکانداری سمجھنے کا موقع دو، سیاسی تعلیم و عقل کی تربیت ہونے دو۔ شخصیت پرستی کے جال سے نکلنے دو، مسائل کے حل پر توجہ ہونے دو۔ جھوٹ، جعل سازی، دھوکا دہی کے راز کردار افشا ہونے دو۔ روٹی، کپڑا، مکان، نوکری، انصاف ، علاج، میرٹ، نظام کی درستی اور مہنگائی کو روکنے کے وعدوں کے اصلی نقلی ہونے کو ثابت ہونے دو غربیوں کو اپنے اپنے رہنماؤں کی محبت میں نعرے لگانے کا حساب لینے دو۔ رہنماؤں کے غیر ملکی دوروں کے اخراجات کا حساب لینے دو۔ آفت زدہ عوام کی امداد کے درمیان فرق کو سمجھنے دو۔ جمہوریت کے جاری رہنے سے عوام کی بہتری کے منصوبے مکمل ہونے دو۔ بار بار کمیشن کھانے کے مواقع نہ دو۔ سیلاب سے بے گھر اور مختلف عذابوں میں گھری قوم کو خود ہی کرپٹ، نااہل رہنماؤں سے رہائی حاصل کرنے دو۔ جمہوریت کو سزا نہ دو۔ اسے تسلسل سے چلنے دو۔
جمہوریت کو سزا نہ دو
Feb 24, 2016