گھوڑا بے مہار

پچھلے مضمون کے تسلسل میں اس دفعہ میرا ارادہ تو یہ لکھنے کا تھا کہ کس طرح ملکی مفاد کا نعرہ لگانے والے ہمیں اور ہماری آنیوالی آئندہ نسلوں کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے میں مصروف ہیں اور یہ آئی ایم ایف ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کیسے ایک اژدہے کی شکل میں ہمارے ملک کو نگلنے کی تیاریاں کر رہا ہے لیکن پچھلے دنوں اچانک وزیراعظم نواز شریف کے اس بیان نے کہ نیب کے ادارے کے کچھ لوگ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے شریف لوگوں کے گھروں میں گھس کر اْنہیں پریشان کرنے کے چکروں میں مصروف ہیں دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی وطیرہ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جنھوں نے وزیراعظم کو اس حد تک مجبور کر دیا کہ اْنھیں اس قسم کا بیان دینے کی ضرورت پیش آئی لہذا موقع کی نزاکت کی مطابقت سے میں نے یہ محسوس کیا کہ قومی اہمیت کے اس اہم مسئلے پر قلم آرائی کو اپنی ترجیحات میں شامل کروں
اس سلسلے میں سرِدست اقتدار کی راہداریوں میں جو تذکرے سننے کو مل رہے ہیں انکے مطابق نیب کا تناور درخت کچھ اسطرح زور پکڑ رہا ہے کہ اسکی کچھ شاخیں وزیراعظم ہاوس کی دیواروں پر چڑھنے کے راستے ڈھونڈنے لگی ہیں اور وزیراعظم ہاوس کے مکینوں کو یہ خطرات لاحق ہونے لگے ہیں کہ کہیں اکاس بیل کی طرح یہ شاخیں انکے اقتدار کو نگل نہ لیں بقول انکے اسی لئے شائد وزیراعظم کو یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ وہ شریفوں کے گھروں کا ذکر کریں کیونکہ انکے نزدیک پاکستان میں ان سے بڑھکر اور کوئی شریف نہیں
یوں تو جس دن سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے اس دن سے اب تک لا تعداد المیے ہماری زندگیوں کا طواف کرتے نظر آتے ہیں لیکن اْن میں سے چند ایک ایسے ہیں جو روزِاول سے سرطان کی طرح ہمارے رویوں میں سرائیت کر چکے ہیں جن میں سرِفہرست ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی سماجی ، معاشرتی ، مذہبی مسئلہ ہو یا قومی اہمیت کا کوئی اور معاملہ ان پر ہماری رائے ہمیشہ ہماری خواہشوں کی اسیر نظر آتی ہے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بیجا تعریف یا غیر ضروری تنقید کے رویئے کس طرح خود ہمارے تشخص کو مجروح کرتے ہیں۔
وزیراعظم کی جاری پالیسیوں کے ناقدین کی فہرست پر ایک نظر ڈالوں تو بڑے فخر کے ساتھ میں اپنے اپ کو اْن خوش نصیبوں کے قبیلے کا ایک فرد پاتا ہوں جو انتہائی دیانتداری سے مثبت تنقید کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ بعض اوقات تنقید کرتے وقت ہمارے بعض دوست یہ بھول جاتے ہیں کہ دراصل ہمارا اسلوب ہی ہمارے قلوب کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے اور ہم اس حقیقت سے بے نیاز کہ سننے اور دیکھنے والے ہمارے اپنے متعلق کیا تاثر قائم کرینگے ہم اپنے اندر پلتے بْغض کو بے نقاب کرنے میں تامل نہیں برتے
وزیراعظم کے اس بیان پر ہونیوالی تنقید بھی کچھ اسی طرح کے شواہد اپنے دامن میں لپیٹے اہل دانش کو فکر کی ایک دعوت دے رہی ہے کہ کس طرح ہم قومی اہمیت کے بے شمار مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ہم اپنی پسند اور نا پسند کے دائروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اصولی طور پر وزیراعظم کے بیان پر کسی قسم کی لب کشائی سے پہلے ہمیں یہ جائزہ لینا چاہیے کہ نیب کے ادارے کا وجود کیسے اور کب عمل میں ایا۔ اسکے قیام کے کیا مقاصد تھے۔ اپنے قیام کے بعد اسکی کیا کارکردگی رہی۔ اسکے وجود نے بحیثیت مجموعی ملکی معاشی صورتحال پر کونسے مثبت اور کونسے منفی اثرات چھوڑے اور سب سے بڑھکر کیا یہ ادارہ اپنے طے کردہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو سکا ہے کہ نہیں۔
یہ حقیقت ہر خاص و عام پر عیاں ہے کہ اس ادارے کا قیام ایک ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے ہاتھوں ہوا جسکے ابتدائی اغراض و مقاصد ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانا تھے۔ ازحد افسوس کے ساتھ یہاں عرض کروں کہ پوری دنیا میں وسائل کا استعمال اس بات پر ہوتا ہے کہ بدعنوانی کو ہونے سے پہلے ہی کیسے روکا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ پہلے بدعنوانی ہونے دو پھر دیکھیں گے کہ اسکے نتیجے میں لوٹی ہوئی دولت کیسے واپس لانی ہے جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصل سے زیادہ ہم اس اصل کی بازیابی پر خرچ کر دیتے ہیں اس سلسلے میں آصف علی زرداری کے مقدمات اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شروع کے دنوں میں اس ادارے نے جنرل امجد کی سربراہی میں بڑی مستعدی سے کام شروع کیا لیکن پھر ایک ایسی فائل سامنے آئی جس پر پیشرفت جنرل مشرف اور جنرل امجد کے درمیان وجہ تنازعہ بن گئی اور جنرل امجد نے اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے چیئرمین نیب کے عہدے کو چھوڑنے میں اپنی عظمت سمجھی۔ اس واقع کا ذکر میں نے اس لئے ضروری سمجھا کہ قارئین کو پتہ چل سکے کہ ادارے کمزور نہیں ہوتے البتہ انکو کنٹرول کرنے والوں کا کردار انکو کمزور کرتا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو سب سے پہلے جوسیاسی لیڈر نیب کے کردار کو زیرِبحث لایا وہ قاف لیگ کا صدر چوہدری شجاعت حسین تھا اسکے پیچھے چوہدری صاحب کی دلیری کا عمل دخل تھا یا انکا وہ ذاتی تجربہ جسکے نتیجے میں وہ نون لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے قاف لیگ کے بانی بنے تھے یہ راز خدا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ لہذا اگر میاں نواز شریف اس ادارے کے کچھ لوگوں کی کارکردگی کو زیرِبحث لانا چاہتے ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں البتہ میاں صاحب کی طرف سے جس وقت پر یہ تنقید سامنے آئی ہے اور جن الفاظ کا چناؤ کیا گیا ہے وہ یقیناً اپنے اندر کچھ سوالات لپیٹے ہوئے ہیں۔ یقیناً اگر میاں صاحب انہی تحفظات کا اظہار اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں کر دیتے تو شائد انکی نیک نیتی اتنے سوالات کی زد میں نہ آتی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں صاحب کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی شخصیات کے علاوہ اقتصادی محاذ پر بھی بڑے پیمانے پر ایسے تحفظات کا اظہار دیکھنے کو مل رہا ہے جو اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہر خاص و عام کے خدشات دور کرنے کیلیئے نیب کے کردار اور اسکے طرز عمل کے حوالے سے ایک واضع حکمت عملی ترتیب دی جائے کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ جن معیشتوں پر خوف کے سائے ہوتے ہیں وہ زیادہ پھلتی پھولتی نہیں۔ اس لیے میاں نواز شریف اس حوالے سے اگر اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لانا چاہتے ہیں یا کسی اور فورم کا انتخاب کرتے ہیں تو ہمیں بغیر کسی بغض کے اس بحث کو ویلکم کرنا چاہیے تاکہ میاں صاحب نے نیب کے متعلق جس بے مہار گھوڑے کا تاثر چھوڑا ہے اسے ہر دؤ لگام پڑ سکے
نیب کے کردار کا تعین کرتے یہ یاد رہے ادارے کبھی برے نہیں ہوتے اور نہ ہی اْنکا عملہ برا ہوتا ہے اگر اداروں کی پالیسیاں مرتب کرنیوالے اور اْنہیںکنٹرول کرنیوالے نیک نیت اور مخلص ہوں اور سب سے بڑھکر اگر ان اداروں میں خود احتسابی کا نظام موجود ہو تو میں یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں نیب جیسے ادارے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...