اسلام آباد (فواد یوسفزئی/ دی نیشن رپورٹ+ آئی این پی) وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر کام رواں سال کے آخر تک شروع ہو گا۔ اور وہ اگلے ماہ تہران جا رہے ہیں۔ یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فنانسر اور کنٹریکٹر کو تلاش کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ آئی این پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ عمران خان کے وفاقی حکومت کی جانب سے خیبر پی کے میں گیس کی تلاش اور پیداوار کے لئے این او سی جاری نہ کرنے کے بیان میں کوئی صداقت نہیں‘ عمران خان کے بیانات غیر ذمہ دارانہ ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں‘ وفاقی حکومت نے کسی کمپنی کو صوبہ میں گیس کی پیداوار اور تلاش سے نہیں روکا‘ حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ صحیح کام نہ کرنے کی وجہ سے گیارہ کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کئے‘ دنیا میں تیل درآمد کرنے والے ممالک میں سب سے سستا پٹرول پاکستان میں ہے‘ بھارت کے مقابلہ میں کم قیمت پر ایل این جی کا معاہدہ کیا‘ ایل این جی مارچ کے پہلے ہفتہ سے آنا شروع ہوجائے گی‘ خیبر پی کے میں اربوں کی گیس چوری ہوتی اور صوبائی حکومت کہتی ہے کچھ نہیں کر سکتے‘ گیس چوری کرنے والوں کے کنکشن کاٹتے ہیں تو دوبارہ بحال کر دیئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا عمران نے بیان دیا ہے کہ خیبر پی کے میں گیس کی تلاش اور پیداوار کے حوالے سے کام روک دیا اور خبریں شائع ہورہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری روک دی ہے اور وفاقی حکومت گیس کی پیداوار اور تلاش کے لئے این او سی نہیں دے رہی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بیانات غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ وفاقی حکومت نے کسی کمپنی کو صوبہ میں گیس کی تلاش سے نہیں روکا۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کاریکس امریکی کمپنی کو 4جون 2010 کو گیس کی تلاش کے لئے لائسنس جاری کیا گیا تھا اور پشاور‘ کوہاٹ‘ اورکزئی‘ نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ ہنگو اور خیبر ایجنسی کے اضلاع گیس کی تلاش اور پیداوار کے لئے مختص کئے گئے تھے۔ کمپنی کو تین سال کا وقت دیا گیا تھا اور 5.9 ملین ڈالر کے کام کی ذمہ داری تھی اور 90 دن کے اندر کام شروع کرنا تھا لیکن پانچ سال ہوگئے کمپنی نے کام شروع نہیں کیا۔ پچھلے چھ ماہ سے وزارت پٹرولیم نے کمپنیوںکے حوالے سے ریویو شروع کیا کہ جو کمپنیاں کام نہیں کررہی ہیں ان کو فارغ کردیں گے اور جس کے نتیجہ میں گیارہ لائسنس منسوخ کئے گئے امریکی کمپنی کو بھی نوٹس دیا تھا کہ آگاہ کرے کام کیوں نہیں شروع کیا۔ کمپنی کے اندرونی جھگڑے کی وجہ سے معاملہ ثالثی کونسل میں گیا تھا اور ثالثی کونسل کے فیصلہ کے تحت عمل درآمد ہوا اور کمپنی کی انتظامیہ نئی آگئی ہے۔ کمپنی کے ذمہ 51 ملین روپے واجب الادا ہیں جو پانچ سال ہوگئے ہیں ابھی تک نہیں ملے۔ عمران خان کے بیانات غیر ذمہ دارانہ ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ خیبر پی کے میں گیس چوروں کے کنکشن کاٹے گئے لیکن دوبارہ بحال کر دیئے جاتے ہیں۔ چھ سے آٹھ ارب کی گیس چوری ہوتی ہے لیکن صوبائی حکومت نے خط لکھا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔