ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے ۔
”چار وارڈر کوٹھری کے اندر داخل ہوئے ، دو نے بھٹو صاحب کے بازو اور دو نے ان کے پاﺅں اور ٹانگیں پکڑ کر اُن کو اوپر اُٹھا لیا ، اُن کی کمر تقریباً فرش کے ساتھ لگ رہی تھی ، اُن کی قمیص کا پچھلا حصہ ان وارڈروں ’جو اُن کی ٹانگوں کو پکڑے ہوئے تھے ‘ کے پاﺅں کے نیچے آیااور قمیص پھٹنے کی آواز آئی۔ میں نے اس قمیص کا معائنہ تو نہیں کیا لیکن وہ بازوﺅں کے نیچے تک ضرور اُدھڑ گئی ہوگی یعنی ٹانکے کھل گئے ہوں گے ۔ اتنی دیر میں مشقّتی عبدالرحمٰن چائے کی پیالی لے کر سامنے آیا جو بھٹو صاحب نے ہمارے داخل ہونے سے پہلے اس سے کہی ہوگی ۔ میں یہ سب دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ جیل کی دیوار کے پار پرائم منسٹر ہاﺅس میں بھٹو صاحب نے جو بھی چاہا‘ دنیا کے کسی بھی حصے سے ان کے لیے فوراً مہیا کیا گیا اور آج ان کی یہ آخری اور معمولی سی خواہش بھی پوری نہ ہو سکی کہ چائے کی ایک پیالی بھی پی سکیں“۔
میں راولپنڈی جیل کے سابق سپیشل سکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کرنل رفیع الدین کی کتاب ”بھٹو کے آخری ۳۲۳دن“ کے اوراق اُلٹ رہا ہوںاور اس دنیا کے بے وفا، فانی اور عارضی ہونے کی اٹل حقیقت کا سامنا کرنے
سے بچنے کے لیے خیالات تراش رہا ہوں لیکن میں ناکام ہوں کہ میں نے ابھی ابھی اپنی آنکھوں کے سامنے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ ¿ دار پرزندگی کے لیے بھیک مانگتے دیکھا ہے ۔چند ماہ قبل تک جو ملک کے تمام بڑے فیصلے نہ صرف خود لیا کرتا تھا بلکہ ہر فیصلے پر حتمی مہر بھی ثبت کیا کرتا تھا،آج اُسے بے آبروکرتے ہوئے معمولی مجرم کی طرح موت کی طرف دھکیل دیاگیا۔وہ بھٹو جس نے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا نہ صرف خواب دیکھا بلکہ اس نا ممکن منزل کے سفر کا آغاز بھی کیا،اس نے محسوس کر لیاتھا کہ آئندہ آنے والے وقت میں یہ ہماری بقا کا واحد ضامن ہوگا۔ وہ بھٹو جس نے اس ملک کے کئی بے بہرہ سیاست دانوں کو عالمی سیاسی شطرنج کی چالوںکو سمجھنا سکھایا۔ وہ بھٹو جس نے غریب اور گونگی قوم کے منہ میں زبان رکھی،جس نے اس عوام کے اندر احساس ِمحرومی کو زندہ کیا تاکہ وہ اپنے حق کے لیے کھڑے ہونااور لڑنا سیکھیں۔وہ بھٹو جس نے اس بے آئین ملک کو آئین دیا۔ وہ بھٹو جس نے عالمی سورماﺅں( اقوام متحدہ) کی جنرل اسمبلی کی نہ صرف صدارت کی بلکہ پاکستانی قوم کے مو¿قف کو یوں زندہ کیا کہ دنیا آج تک حیران ہے ۔وہ بھٹو کہ جس نے پاکستان کے لیے اسلامی دنیا کی سربراہی کاخواب دیکھا اور اس خواب کو تمام اسلامی دنیا کے سربراہوں کی حمایت بھی لے کر دی،اُس بھٹو کو ابھی ابھی میں نے اختتام ِ زیست کے مرحلے پر چائے کی ایک پیالی کے لیے تشنہ لب دیکھا ہے۔
اسی کتاب کا ایک اور اقتباس دیکھیںاور انسانیت کی شکست و ریخت کا منظر ملاحظہ کریں:
”تارا مسیح نے اُن کے سر اور چہرے پر ماسک چڑھا دیا۔ٹھیک دو بج کر چار منٹ پر جلاد نے لیور دبایا اور بھٹو صاحب ایک جھٹکے کے ساتھ پھانسی کے کنویںمیں گِر پڑے ۔میں اُوپر سے سیڑھیوں کے ذریعے اُتر کر کنویں کے کھلے رُخ نیچے گیااور دیکھا کہ بھٹو صاحب کا جسم معمولی ہل رہا تھا جو اوپر سے نیچے گرنے کی وجہ سے تھا لیکن وہ اس وقت مردہ حالت میں تھے ۔میں انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے پاس ان کرسیوں پر آکر بیٹھ گیا جو لٹکی ہوئی لاش کے سامنے رکھی ہوئی تھیں۔چند منٹوں بعد میںنے کسی کو کنویں میں بھٹو صاحب کے جسم کو ہلاتے ہوئے دیکھا۔میں نے چوہدری یار محمد‘ جو میرے پہلو میں بیٹھے تھے ، سے پوچھا کہ کنویں میں بھٹو صاحب کی نعش کے ساتھ کون ہے ؟ ان کی بجائے مجھے آئی جی پرزّن(IG Prisions)نے بتایا کہ وہ تارا مسیح ہے اور ہاتھوں اور ٹانگوں کو سیدھا کر رہا ہے تاکہ تشنج کی وجہ سے ان کا جسم ٹیڑھا نہ ہو جائے۔مجھے اچانک خیال آیا کہ بھٹو صاحب کی گھڑی اور ان کی اُنگلی پر انگشتری اُتار لینی چاہیے۔میں نے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ قریشی کو بلایا اور ان سے کہا کہ بھٹو صاحب کی گھڑی اور انگوٹھی اُتار لی جائے ۔ وہ بھٹوصاحب کی گھڑی تو اُتار کر لے آئے مگر کہنے لگے کہ اُن کے ہاتھ میں انگشتری نہیں ہے ۔ میں نے مسٹر قریشی کو بتایا کہ میں نے آج ہی اُن کی اُنگلی میں انگوٹھی دیکھی تھی۔ آئی جی پرزّن نے مسٹر قریشی کو بلایا اور کہا کہ جا کر تارا مسیح کی تلاشی لے۔ تھوڑی دیر بعد مسٹر قریشی، بھٹوصاحب کی انگشتری لے کر آگئے اور بتایا کہ یہ تارا مسیح کی جیب سے نکلی ہے“ ۔
ذرا آگے بھی سنیے:”بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ان کی پھانسی کے بعد ان کی گھڑی اس وقت کے جیل کے سنتری کو دے دی جائے ۔ اس پر اچھی خاصی بحث ہوئی ۔ آئی جی صاحب نے کہاکہ یہ تو بڑی قیمتی ہو گی، کم از کم کئی ہزار روپے کی تو ہوگی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے فوراً کہا کہ یہ قانونی طور پر میری ملکیت ہونی چاہیے۔ میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ کسی نے خوب کہا ہے ،بکرے کو جان کی اور قصاب کو چربی کی “۔میں سوچ رہا ہوں کہ انسان کی لالچ اور اس کے اندر دھرنا دئیے بیٹھی ہوس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، چاہے اس کے سامنے کسی حاکم ِ وقت کی لاش ہی کیوں نہ پھندے پر جھول رہی ہو ۔ جس تارا مسیح کے حقوق کے لیے بھٹو نے پھانسی کا پھندا چاہتے نا چاہتے ہوئے قبول کر لیا، جس سپرنٹنڈنٹ کو نہ نظر آنے والی زنجیروں سے آزادی دلانے کے لیے بھٹو موت سے بغل گیر ہوئے، وہ بھٹو موت کے چند لمحوں بعد ہی انسان کی لالچ کا ننگا ناچ دیکھ رہا تھا ۔ایک گھڑی یا ایک انگشتری کی اوقات ہی کیا ہے ۔دراصل یہ المیہ ہے معاشرے کے اندر پھیلی نہ مٹنے والی بھوک کا ، کہ جس کے لیے انسان حلال و حرام ، صحیح وغلط کی تمام حدود سے پار جاکر گرتا ہے ۔مجھے بات توکرنی تھی ذوالفقار علی بھٹو کی مظلومیت پر، مجھے بات کرنی تھی بڑی طاقتوں کے آشیر باد سے ظلم ڈھانے والوں کے خلاف،سوچا تھا کہ بھٹو کا مقدمہ آپ کے سامنے لڑوں گالیکن مجھے انسان کے ساتھ چپکی ناتمام حسرتوں اور خباثتوں نے گھیر لیا۔اب بھٹو کے بارے میں کیا بات کروں وہ تو خود ہی ایک کہانی ہے ۔۔ نہ ختم ہونے والی کہانی ۔