کلیساء میں آذان

ٹیم ورتھ آسٹریلیا کا ایک خوبصورت قصبہ ہے جہاں سر سبز وادیوں میں کینگرو اپنے بچے اٹھائے قلیلیںبھرتے نظر آتے ہیں ۔ درختوں سے ڈھکے پہاڑوں کی چوٹیوں پر جھکے ہوئے بادل اور صاف ستھری کشادہ سڑکوں اور بارونق گلیوں میں سرسراتی ہوئی تازہ ہوائیں کشمیر کی یاد دلاتی ہیں ۔فطرت کے حسن سے مالا مال اس قصبے میں ونگ کمانڈراحمد شجاع قریشی کا خاندان آباد ہے۔ جن کے آباواجداد کا تعلق مظفرآباد آزاد کشمیر سے ہے ۔ احمد شجاع قریشی آجکل متحدہ عرب امارات میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں جبکہ ان کی اہلیہ ڈاکٹرجویریہ شجاع بچوں کی تعلیم اور ٹیم ورتھ کے ہسپتال میں جزووقتی ملازمت کی وجہ سے ٹیم ورتھ میں مقیم تھیں۔انہی دنوں انہیں گھر میں لکٹری کا کام کرانے کے لئے ایک کاریگر کی خدمات حاصل کرنا
پڑیں۔پہلے دن کام کے دوران ظہر کا وقت ہو گیا ۔ ڈاکٹر جویریہ باورچی خانے میں بریانی تیار کر رہی تھیں جس کی خوشبو سے سارا گھر مہک رہا تھا ۔ بچے سکول سے آئے تو انہوں نے دسترخوان پر کھانا چن دیا اور بریانی رائتہ اور دیگر پاکستانی لوازمات ٹرے میں سجا کر کاریگر کے سامنے رکھتے ہوئے کہا آپ پہلے کھانا کھا لیں پھر کام کریں۔ اس نے حیرت سے کہا "معمول کے مطابق برگر اور مشروب میری گاڑی میں موجود ہیں۔ اب نصف گھنٹے کا وقفہ کرنے ہی والا تھا۔آپ نے یہ زحمت کیوں کی؟ ہمارے پیکج میں تو یہ شامل نہیں ہے۔"ڈاکٹر جویریہ نے کہا آپ اطمینان رکھیں یہ پیکج کا حصہ نہیں ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کا حکم ہے کہ اگر کھانے کی خوشبو آپ کے ہمسائے تک پہنچے تو آپ کو چاہیے کہ اپنے کھانے میں اس کو شامل کریں۔اس لئے مجھے خوشی ہو گی آپ اسے اپنا حق سمجھ کر قبول کریں ۔ وہ شکریہ کہہ کر میز پر بیٹھ گیا اور ڈاکٹر جویریہ بچوں کے پاس آگئیں۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازے پر دستک دی اور کہا " عجیب لذت کا تازہ کھانا ہے ۔ میں نے اس سے قبل ایسا خوشبودار اور لذیز کھانا کبھی نہیں کھایا ۔ کیا اور مل سکتا ہے ؟"خاتون خانہ نے بچی ہوئی بریانی اس کی پلیٹ میں ڈال دی ۔ کھانے سے فارغ ہو کر اس نے کہا"آپ نے کھانا دیتے وقت شروع میں کچھ کہا تھا وہ پھر دہرائیں میں سمجھ نہیں سکا تھا" ڈاکٹر جویریہ نے مزید احادیث کے ساتھ اپنی اسلامی اور ثقافتی اقدار کا تذکرہ کیا تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ادھیڑ عمر آسٹریلوی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور کہا "اگر تمہاری طرح چند مسلمان بھی اپنے انسان دوست اور محبت بانٹنے والے عظیم پیغمبر ﷺ کو اسی طرح یاد رکھتے ہوئے ان کی اطاعت کرتے ہیں تو پھر دنیا میں امن اور سلامتی والے اسلام کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔"
یہ پہلا تازیانہ تھا جو ڈاکٹر جویریہ کے دل پر پڑا۔ دن گزرتے گئے اور احمد شجاع قریشی العین ابو ظہبی سے ایک ماہ کی چھٹی پر آسٹریلیا آتے تو بچوں کے ہمراہ امریکہ اور یورپ کے مختلف شہروں اور قابل دید مقامات کی سیاحت کے لئے نکل پڑتے۔ڈاکٹر جویریہ کے اسلامی لباس اور سکارف کی وجہ سے ہر جگہ چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے جاتے ۔ آسٹریلیوی ساتھیوں میں سے اکثر تعدد ازدواج ، پردہ، حلال اور حرام کے احکامات صوم و صلوٰۃ کی پابندی پر جستجو کرتے اور عیسائیت کے عقیدہ تثلیث پر گفتگو ہوتی ۔ بالآخر بات ٹیم ورتھ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے Calrossy Anglican School and College Tam Worth NSW Australia تک پہنچی اور انتظامیہ نے طلبہ کے لئے عیسائی سکالر ز اور کچھ مذہبی رہنمائوں کے ساتھ ڈاکٹر جویریہ کے مباحثہ اور طلبہ کے سوال و جواب کا اہتمام کیا۔ جس کا عنوان تھا " اسلام اور عیسائیت کا تقابلی جائزہ " ڈاکٹر جویریہ نے اس مباحثہ کی مکمل تیاری کی اور اپنی تمام سہیلیوں اور ان کے مردوں کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی ۔ جن کے بے شمار سوالات کا جواب ان کے ذمہ تھا۔ یہ مجلس انتہائی کامیاب رہی ا ور تورات ، بائبل اور قرآن و احادیث کی روشنی میں ڈاکٹر جویریہ کے دلائل کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
محنت اور ریاضت کے یہ لمحات بارگاہ خداوندی میں مقبول ہوئے اور زیر تبصرہ کتاب " کلیساء میں آذان " کی صورت میں ایک مفید اور قابل قدر کاوش منظر عام پر آئی ۔ یہ پاک و ہنداور کشمیر کے تمام مسلمانوں کے لئے بہترین زادِ راہ ہے جو یورپ ، امریکہ اور دیگر غیر مسلم معاشروں میں آباد ہو کر اپنا اسلامی تشخص بر قرار رکھنے کی جدوجہد میں تنقید و طنز کا نشانہ بنتے ہیں اس کتاب کے ابتدائی ابواب تورات ، انجیل اور زبور کے تعاوف پر مشتمل ہیں ۔ ڈاکٹر جویریہ نے انتہائی مہارت اور عرق ریزی سے ان کتب میں اللہ کے خالص کلام کو علیحدہ کیا اور ایک ایک لفظ کی شان ، جملوں کا بہائو ، جنت جہنم جیسی نادیدہ دنیائوں میں انسان کا روحانی و خول و تعارف ، بادشاہوں کے بادشاہ حکم الحاکمین کے بارعب لہجے کا جاہ و جلال اور جلیل القدر انبیاء کے دل و زبان پر الہام کا ورود یکجا کر کے اصل نزول کلام کا مستشرقین اور مذہبی سکالرز کے بناوٹی اور تحریف شدہ کلام کو اس سے چھان پھٹک کر الگ کیا ہے ۔ پہلے مرحلے میں تورات ، انجیل اور زبور کے متن کو تین حصوں میں آشکار کیا گیا ہے ۔
اول ۔ خدا کا کلام
دوم۔ خدا کے پیغمبر کا کلام
سوم۔ تاریخ دان کا کلام
اس تشریح اور وضاحت کے بعد مصنفہ ثابت کرتی ہیں کہ قرآن پاک ابدالآباد تک کے لئے ایسا معجزہ ہے جو مکمل اور سراسر الہام ہے اور الحمد سے لے کر والناس تک حرف بحرف اللہ کا کلام ہے ۔ اس کی سو فیصد سچائی برٹش لائبریری سے دستیاب اولین نسخہ کلام سے لے کر آج کے زیر تلاوت قرآن میں زیر زبر تک کی مطابقت سے آشکار ہوتی ہے جو ایک چونکا دینے والا اعلان ہے کہ قرآن میں خود اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے ۔"بے شک ہم نے ہی یہ قرآن نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے حفاظت کے ذمہ دار ہیں " اس کے بعد قرآنی احکامات کی تشریح حضرت محمد مصطفی ﷺ کے کلام کی صورت میں احادیث کی مختلف مستند کتابوں میںمصدقہ حوالہ جات کے ساتھ انتہائی احتیاط سے قلمبند کئے گئے ہیں ۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا ہر پاکیزہ اور عظیم عمل مجسم قراں اور رحمت للعالمین کے پیکر میں ڈھل کر قیامت تک انسانیت کی فلاح و نجات کا علمبردار ہے ۔ آپﷺ کے اشارہ ابرو سے لے کر روزمرہ کے معمولات کا ایک ایک لمحہ اور آپﷺکی ہمہ جہت و ہمہ گیر ہستی کا ہر پہلو عاشقان مصطفیﷺ کی نوک قلم پر ہے ۔ اسی طرح اسلامی تاریخ اور روایات بھی الگ الگ کتابوں میں درج ہیں اور کوئی چیز آپس میں گڈ مڈ نہیں ہے۔(جاری ہے)


ؔ

تمام الہامی کتابوں میں بعثت محمد ﷺ کی پیش گوئی:
تورات ، انجیل، زبور کے مصدقہ مندرجات کو کلام الہٰی ثابت کرنے کے بعد " کلیساء میں آذان " ان الہامی کتب میں حضرت محمدﷺ کی بعثت کی پیش گوئیوں کے حوالہ جات دلیل کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔ یہاں یہ بنیادی نقطۂ نقل کرنا مناسب ہو گا کہ بائبل کی چار انجیلیں حضرت عیسیٰ کے ایک صدی کے بعدکے عرصۂ میں ضبط تحریر میں لائی گئیں جو زبانی روایات کی شکل میں پہنچی تھیں ۔ ابتدائی صدیوں کے درمیان ردوبدل اس وجہ سے ہوئے کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق دانستہ تفسیرو تبدل کو جائز سمجھتے رہے۔ ( انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ایڈیشن1946 ) حضرت عیسیٰ کے صحیح حالات اور آپ کی اصل تعلیمات کو جاننے کا معتبر ذریعہ وہ انجیل برنا باس ہے۔ جسے آج کا کلیساء غیر قانونی اور مشکوک الصحت کہتا ہے۔صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ۔1738 میں اس کا ایک نسخہ مختلف کتب خانوں سے ہوتا ہوا دیانا کی امپیریل لائبریری میں پہنچ گیا اور 1907 میں اس نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کلیرنڈن پریس سے شائع ہوا۔ انجیل برنا باس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ۔ شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال اس کتاب میں درج کر رہا ہوں ۔ بائبل کی کتاب اعمال میں برنا باس کا نام بڑی کثرت سے آتا ہے جو قبرض کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور بعد میں دین مسیحیت میں داخل ہو گیا ۔ انجیل برنا باس میں حضرت عیسیٰ کی زندگی اور تعلیمات ایک نبی کی زندگی کے مطابق نظر آتی ہیں ۔ توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد ، نماز روزے اور زکوٰۃ کی تلقین اور ان کی نمازوں کا جو زکر برنا باس نے بکژت مقامات پر کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور تہجد کے اوقات میں نماز پڑھتے تھے اور نماز سے پہلے وضو کرتے تھے۔ بعد میں جب سینٹ پال اس جماعت میںداخل ہوا تو اس نے رومیوں ، یونانیوں اور دوسرے غیر اسرائیلی لوگوں کو بھی عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت شروع کر دی اور اس غرض کے لئے ایک نیا دین بنا ڈالا جس کے عقائد ، احوال و احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ نے پیش کیا تھا۔ سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا اس غیر یہودیوں عیسائیوں کا ایک زبردست سیلاب اس مذہب مین داخل ؒ ہو گیا جس کے مقابلے میں مٹھی بھر لو گ کسی طرح نہ ٹھہر سکے ۔ چنانچہ عقائد اور ایمان کے اس تنازعہ کی وجہ سے سرکاری طور پر انجیل برناپاس کو کلیساء کی سفارش سے ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اس کی ذیادہ تر وجوہات انجیل میں ذکر محمد ﷺ اور حضرت عیسیٰ سے منسوب آپﷺ کی بعثت کی پیش گوئیاں ہیں۔
موسیٰ جیسا نبی ؑ
قرآن مجید کی اولین سورۃ اور پہلی وحی جس کا آغاز "اقراء یعنی پڑھ سے ہوا اور آپﷺ نے حضرت جبرائیل ؑسے فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا اس واقعہ کو انجیل مقدس میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ـ"اور پھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اس کو پڑھ اور وہ کہیں میں تو پڑھنا نہیں جانتا"یسیائIsaiah 29-12 حضرت محمد ﷺ ناخواندہ تھے بعد میں انہیں سورۃ الاعراف آیت نمبر 7:158 میں اللہ تعالیٰ نے نبی الامی کے الفاظ میں یوں فرمایا "لوگو!اللہ تعالی پر اور اس کے پیغمبر ان پڑھ نبیﷺ پر ایمان لائو" موجودہ بائبل old Testament یعنی عہد عتیق اور New Testament یعنی عہد جدید پر مشتمل ہے ۔ عہد عتیق کو حضرت موسیٰ کی کتاب تورات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ نے حضرت محمد ﷺ سے متعلق اپنی قوم سے خطاب میں مندرجہ ذیل بشارت دی تھی۔ " خداوند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا ۔ خداوند نے مجھ سے کہا میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گااور جو کچھ میں حکم دوں گا وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کرکہے گا نہیں سنے گا تو میں ان کا اس سے حساب لوں گا "
بائبل برنا باس میں حضرت عیسیٰ کی پیش گوئیاں
۱۔ تمام انبیاء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا تھا جن کی تعداد ایک لاکھ 44 ہزار تھی انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہوئی باتوں کے اندھیرے پر روشنی ڈال دے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے (باب (17
۲۔بایقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لئے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے اس وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا کہیں اور نہیں پھیلیں جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے۔ مگر خدا کا رسول ﷺ جب آئے گا اس کو اپنے ہاتھ کی مہر دے گا وہ بے خدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا اور بت پرستی کا ایسا قلع قمع کرے گا کہ شیطا ن پریشان ہو جائے گا۔
۳۔ مگر جب خدا مجھے دنیا سے لے جائے گا تو شیطان پھر یہ بغاوت برپا کر دے گا کہ ناپرہیزگار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں اس وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کر دیا جائے گا ۔ یہاں تک کہ بمشکل 30 صاحب ایمان باقی رہ جائیں گے اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھجے گا جس کے لئے اس نے دنیا کی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ ہی برباد کر دے گا جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پر حاصل کر لیا ہے۔ وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کے لئے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے اور مبارک ہے وہ جو اس کی باتوں کو مانے (باب(96
۴۔ سردار کاہین نے پوچھا وہ مسیح کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کوظاہر کریں گی۔ یسوع نے جواب دیا ۔ اس مسیح کا نام "قابل تعریف " ہے ۔ کیونکہ خدا نے جب اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا نام خود رکھا تھا اور وہاں اسے ایک ملکوتی شان میں رکھا گیا تھا۔ خدا نے کہا " اے محمد ﷺ انتظار کر کیونکہ تیری ہی خاطر میں جنت ، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا اور اس کو تجھے تحفہ کے طور پر دوں گا۔ یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی جب میں تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو میں تجھ کو اپنا پیامبر نجات کی حیثیت سے بھیجوں گا تیری بات سچی ہو گی یہاں تک کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر تیرا دین نہیں ٹلے گا سو اس کا مبارک نام محمدﷺ ہے"
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روائت ہے کہ مہاجرین حبشہ کو جب نجاشی نے اپنے دربار میں بلایا اور حضرت جعفر بن ابی طالب سے رسولاللہ ﷺ کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا ــ"مرحبا تم اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو میں گو اہی دنیا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہی جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن مریم نے دی تھی"
350 صفحات پر مشتمل اس کتاب "کلیسا میں آذان"میں تورات اور انجیل میں درج آب زم زم ، ہجرت مدینہ ، فتح مکہ ، حضرت عمر الخطاب کے ہاتھوں فتح بابل، غزوہ بدر ، حضرت عیسیٰ کا یہودہ اسکریوتی کی سازش سے معلوب ہونا اور اللہ کی طرف سے حضرت عیسیٰ کو اٹھا کر لے جانا اور یہودہ اسکریوتی کو حضرت عیسیٰ کی شکل و صورت اور ویسی ہی آواز دے کر صلیب پر لٹکایا جانا یہ سب پیش گوئیاں تفصیل سے درج ہیں۔ آخری ابواب میں شق القمرکا معجزہ کثرت ازدواج سے متعلق غیر مسلم اعتراضات کا جواب پردہ ، قانوں شہادت میں عورت کی گواہی ، مسلمانوں میں فرقہ بندی جیسے مسائل پر سیر حاصل بحث کے علاوہ آنجنابﷺ کے خطبہ حجۃالوداع پر ایک پر مغز باب شامل ہے ۔ آخری باب میںڈاکٹر جویریہ شجاع کے اپنے لمحات معرفت اورمسجد نبوی ﷺ میں عشق مصطفٰی سے سرشار خود کلامی پر مشتمل ہے جو انتہائی اثر انگیز اور امت کے مصائب اور درد کی تصویرکشی ہے۔ چونکہ یہ کتاب بطور خاص بیروں ملک مقیم پاکستانیوں نیز ہندوستانی اور کشمیری اور جنوبی ایشیاء کے اردو بولنے والے مسلمانوں کے لئے لکھی گئی ہے اس لئے اس میں نبی آخر الزاماں حضرت مصطفی ﷺ کو نبی رحمت ﷺ کے طور پر متعارف کرتے ہوئے انتہائی جامع اور سادہ انداز میں مسلمان مرد کے لئے مخصوص حالات میں بیویوں میں انصاف کی شرط کے ساتھ چار شادیوں کی اجازت، حجاب ، بیوہ اور مطلقہ خواتین کے لئے نکاح کی اجازت ، خطنہ اور اس قسم کے دیگر معاشرتی معاملات ، بہترین اسلامی ثقافت کے طور پر عقلی اور نفسیاتی بنیادوں پر دلائل کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں تاکہ اسلام کو اللہ کے آخری پیغام کے طور پر سمجھنے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ اسلام دین فطرت ہے اس کا مزاج رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے خوشی سکون اور آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کی ضروریات کے مطابق ہے۔ قرآن نہ صرف موت کے بعد کی ابدی زندگی کی خوشی اور خوشحالی کی ضمانت دیتا ہے بلکہ اس عارضی زندگی کے اتار و چڑھائو ،، انسان کی انفرادی غلطیوں کے انجام بد، اجتماعی معاشرتی مسائل ، آدمی کے اندر کی باطنی اور ذہنی کشمکش، خود ساختہ پرشانیوں ، زندگی کے فتنوں اور سماجی مسائل کا بھی حل پیش کرتا ہے ۔ وہی رب العالمین ہم سے پیار کرنے والا الرحم الراحمین ہی تو ہے جو قرآن میں یہ اعلان کرتا ہے کہ بر و بحر میں جس قدر بھی فساد ہے وہ انسان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے اور پھر وہ ان کرتوتوںکے برے نتائج سے بچانے کے لیئے انسان کی نجات کے جو اصول وضع کرتا ہے بد قسمت انسان تعصب اور تنگ نظری کے اندھیروں میں گم ہو کر اللہ کی اسی محبت اور رحمت میں تشکیک پیدا کر کے اپنا ہی حلیہ بگاڑ لیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن اللہ کا آخری اور ابدی پیغام ہے جس کا خطاب یا ایھاالناس سے ہے اور یہی اس کی کائناتی سچائی کی ناقابل تردید دلیل ہے۔ ڈاکٹر جویریہ شجاع نے کلیساء میں آزان میں انسان اور انسانی زندگی کے ان اہم موضوعات پر قلم اٹھا کر نہ صرف اہل اسلام بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کی بہترین خدمت انجام دی ہے جو پاکستان کی ایک درد مند بیٹی اور رسول رحمت حضرت مصطفی ﷺ کی محبت میں سرشار ایک ادنیٰ امتی کی طرف سے دنیا کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے ۔ اگر کوئی اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کا بیڑہ اٹھا لے تو یہ دنیا میں اور آخرت کے لئے ایک بہت بڑا عمل ہو گا جس کا اجر عظیم اللہ ہی کے پاس ہے۔ حکومت پنجاب اور آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر نے تعلیمی اداروں کی لائبریوں کے لئے۔ اس کتاب کی منظوری دی ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن