چیئرنگ کراس خودکش حملے کے دس روز بعد پنجاب کا دارالحکومت لاہور پھر دہشت گرد دھماکے سے لرز اٹھا‘ جمعرات کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے کے قریب سفاک دہشت گردوں نے لاہور کے پوش اور سکیورٹی کے حوالے سے محفوظ ترین علاقے ڈیفنس زیڈبلاک کی کمرشل مارکیٹ میں ایک زیرتعمیر عمارت میں ٹائم ڈیوائس دھماکہ کیا جس سے آٹھ افراد شہید اور 30 کے قریب زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر جنرل ہسپتال اور دوسرے قریبی ہسپتالوں میں پہنچایا گیا جہاں متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اسکی آواز دور دور تک سنی گئی جبکہ قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور جائے وقوعہ پر کھڑی چار گاڑیاں اور 2 موٹرسائیکلیں مکمل تباہ ہو گئیں۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے ذرائع کے مطابق دھماکے میں 20 سے 25 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق ابھی دھماکے کی حتمی نوعیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دھماکے کے فوری بعد پاک فوج‘ رینجرز اور کوئیک رسپانس فورس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ اپریشن شروع کر دیا جبکہ ڈیفنس میں سکول اور دکانیں بند کرادی گئیں اور بچوں کو حفاظتی انتظامات میں انکے گھروں میں بھجوادیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے دہشتگردی کی اس سفاکانہ واردات کی پولیس اور دوسرے متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ ڈیفنس کے مکینوں کے مطابق کچھ روز قبل ڈیفنس کے وائی اور زیڈ بلاک میں کمرشل مارکیٹوں کو نشانہ بنائے جانے کی تھریٹ ایڈوائزری جاری ہوئی تھی۔ اسکے باوجود یہاں سکیورٹی کے کسی طرح کے بھی غیرمعمولی انتظامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
دھماکے کی ابتدائی اطلاعات میں ڈیفنس دہشت گردی کو جنریٹر دھماکہ ظاہر کیا گیا تاہم کچھ ہی دیر بعد اس دھماکے میں متعدد شہریوں کے جاں بحق اور زخمی ہونے کی اطلاعات ملنا شروع ہوگئیں اور پھر بم ڈسپوزل سکواڈ نے اس امر کی تصدیق کردی کہ زیرتعمیر عمارت میں 20 سے 25 کلو کے دھماکہ خیز مواد پر مبنی بم نصب کیا گیا تھا جس کا ٹائم ڈیوائس کے ذریعے دھماکہ کیا گیا۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ دہشت گردی کے ان ٹھوس شواہد کے باوجود اس دہشت گردی کو کسی ناگہانی حادثے سے تعبیر کرتے رہے جبکہ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کے بقول جانی نقصان زیرتعمیر عمارت کی چھت گرنے سے ہوا ہے۔ یہ صورتحال دہشت گردی کی حالیہ فضا میں حکمرانوں کی غیرسنجیدگی کی عکاسی کرتی ہے اور عوام اس نازک موقع پر وزیراعظم نوازشریف کے ملک چھوڑ کر ترکی جانے کے بارے میں بھی سوالات اٹھا رہے ہیں جنہیں ملک میں افراتفری اور قیاس پھیلانے اور ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے دشمن کے مذموم ایجنڈے کو ناکام بنانے کیلئے بہرصورت ملک میں موجود رہنا چاہیے تھا۔ جب دس روز قبل کے چیئرنگ کراس دھماکے کے بعد انکی زیرصدارت لاہور میں منعقد ہونیوالے سول اور عسکری قیادتوں کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے فوری اور سخت ترین اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا جس پر عملدرآمد کا آغاز بھی کردیا گیا تو وزیراعظم کا کسی کانفرنس میں شمولیت کیلئے ترکی جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا کیونکہ انکی موجودگی میں دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے شروع کیا گیا اپریشن زیادہ مو¿ثر ہوتا اور ملک کی سالمیت کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھنے والے ہمارے دشمن بھارت کو ہمارے کسی بھی حوالے سے کمزور ہونے کا کوئی تاثر نہ جاتا جبکہ وزیراعظم نے ڈیفنس دھماکے کی اطلاع ملنے کے بعد بھی ترکی میں اپنی مصروفیات کا باقیماندہ شیڈول منسوخ کرنے اور فوری طور پر ملک واپس آنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس سے انکے حوالے سے بلاوجہ کی افواہیں جنم لے رہی ہیں۔
دہشت گردوں کی سرپرستی‘ تربیت اور فنڈنگ کرنیوالے ہمارے ازلی دشمن بھارت نے ڈیفنس دھماکے کیلئے اس وقت کا انتخاب کیا ہے جب ہماری سکیورٹی فورسز کی جانب سے ملک بھر میں شروع کئے گئے دہشت گردوں کی سرکوبی کے اپریشن میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہونے کے بعد عسکری قیادت کی جانب سے بچے کھچے دہشت گردوں کے صفایا کیلئے ملک بھر میں ”اپریشن ردالفساد“ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا اور پنجاب میں رینجرز کی کارروائیوں کا بھی آغاز ہوگیا جس سے قوم کو اس امر پر تسلی اور اطمینان حاصل ہورہا تھا کہ اب ملک میں دہشت گردی کا ناسور جڑوں سے کاٹا جانا یقینی ہو گیا ہے جس کے بعد وطن عزیز پہلے کی طرح امن و آشتی کا گہوارہ بن جائیگا اور اقتصادی استحکام کی منزل حاصل ہو جائیگی۔ اس کیلئے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے گزشتہ روز ہی اپنی ایک رپورٹ کے ذریعے پاکستانی قوم اور اقوام عالم کو نوید سنائی تھی کہ دہشت گردی کے باوجود پاکستان کی معیشت بہتر ہورہی ہے۔ اسی طرح لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں کے پبلک مقامات پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی پے در پے وارداتوں کے باوجود پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہی کرانے کے فیصلہ کو برقرار رکھ کر بھی دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کو یہ ٹھوس پیغام دیا گیا کہ وہ اپنی سفاک وارداتوں کے باوجود پاکستان کی بہادر قوم اور زندہ دلان لاہور کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہے ہیں اور پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے سے متعلق ان کا ایجنڈا کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا۔
ہمارے دشمن بھارت کو یقیناً اقتصادی طور پر خوشحال اور مستحکم پاکستان اور اہل پاکستان کے چہروں پر امڈتی خوشیاں گوارا نہیں اس لئے ڈیفنس دھماکے کے ذریعے ہمارے اس سفاک دشمن نے بالخصوص سپرلیگ فائنل کے حوالے سے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی سازش کی ہے۔ یہ صورتحال ہمارے لئے یقیناً ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے کہ سپرلیگ کا فائنل ہر صورت لاہور ہی میں کراکے دشمن کے ناپاک عزائم ناکام بنا دیئے جائیں اور اسکی منصوبہ بندی کے تحت حاصل کی جانیوالی خوشیاں کافور کرکے اسے یہ ٹھوس پیغام دے دیا جائے کہ اسکی کوئی سازش ہماری خوشیاں چھین سکتی ہے نہ ہمارے حوصلے پست کرسکتی ہے اور اسی طرح پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھی اسکی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
بلاشبہ آج ہماری سکیورٹی فورسز نے‘ جن کے اپنے کئی افسران اور جوانوں نے بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں آکر جام شہادت نوش کیا ہے‘ ایک نئے عزم اور ملک کی سالمیت کا تحفظ یقینی بنانے کے جذبے کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں و سہولت کاروں کو ٹھکانے لگانے کیلئے بے رحم اپریشن کا آغاز کیا ہے اور افغانستان کے اندر جا کر بھی انکی سرکوبی کی ہے جہاں وہ پاکستان کے دشمن بھارت کی شہ پر اور کابل انتظامیہ کی سرپرستی میں محفوظ ٹھکانے بنا کر بیٹھے ہوئے تھے اور پاکستان میں دہشت گردی کیلئے ڈوریاں ہلا رہے تھے۔ اس سے یقیناً قوم میں بھی ایک نیا جذبہ پیدا ہوا ہے اور وہ سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنی بہادر و جری سکیورٹی فورسز کیلئے ڈھال بن گئی ہے جبکہ اب سکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں اپریشن ”ردالفساد“ شروع کرکے دشمن کے ایجنڈے کے تحت ہماری سرزمین پر فساد برپا کرنیوالے انسانیت دشمن دہشت گردوں کی نسلوں تک کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ معصوم و بے گناہ شہریوں کی جانیں لینے اور ملک کی سالمیت سے کھیلنے والے مجہول دہشت گرد اور فسادی اپنے بھیانک انجام سے کسی صورت نہیں بچ سکتے۔
اس تناظر میں آج قومی جذبہ اور یکجہتی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جسے دشمن نے ڈیفنس دھماکے کے ذریعے متزلزل کرنے کی کوشش کی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت منعقد ہونیوالے گزشتہ روز کے اجلاس میں‘ جس میں دہشتگردوں کیخلاف ملک بھر میں ”اپریشن ردالفساد“ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گی‘ دہشت گردوں اور انکے ملکی و غیرملکی سرپرستوں کو یہی ٹھوس پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اب اپنی خیر منائیں۔ اگر ان کا ایجنڈا پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کا ہے تو اسکی تکمیل کا خواب ان کیلئے ڈراﺅنا خواب بن جائیگا۔ آج دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں آنے کے باوجود ہماری معیشت کی بہتری پر اطمینان اور ہم پراعتماد کا اظہار کررہی ہے تو اب اس عالمی اعتماد میں کوئی کمی نہیں آنے دینی چاہیے۔ اس کیلئے سب سے پہلے ہمارے حکمرانوں کے سنجیدہ اور باعمل ہونے کی ضرورت ہے۔