ورلڈ بینک رپورٹوں کے مطابق اس سال محکمہ لائیو سٹاک کی کارکردگی کی گزشتہ دس سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ ناقص رہی۔ سیکرٹری لائیو سٹاک و دیگر پر ”کڑی تنقید“ ان کی محنت کاغذوں تک محدود۔ محکمہ خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔صوبے بھر میں لائیو سٹاک کی ترقی کےلئے کوئی بڑے اقدامات نہیں اٹھائے جا سکے۔ مویشی پال حضرات اور محکمہ کے درمیان رابطوں کا شدید فقدان دیکھنے میں آیا۔ زیادہ تر کسانوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ محکمہ لائیو سٹاک سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ صوبے میں غیر معیاری ونڈے کی فروخت کا سلسلہ جاری رہا اور سال بھر بڑی تعداد میں جانور غیر معیاری ونڈا کھانے سے ہلاک ہو گئے لیکن غیر معیاری ونڈے، جانوروں میں بڑھتی بیماریوں میں خاص طور پر ”منہ کھُر“ اور غیر معیاری ادویات سے بیماریاں بجائے ٹھیک ہونے کے بڑھتی ہیں یہ تو حالت ہے محکمہ لائیو سٹاک کی۔ جس کی ذمہ داری ان تمام امور کی نگرانی کرنا اور اس میں بہتری لانے کےلئے اقدام کرنا ہے۔ دوسری طرف جب ہم بازار کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دیکھنے میں تو دودھ نظر آتا ہے لیکن جب پیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو دودھ کی بجائے زہر پلایا جا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جس قسم کی رپورٹ پیش کی گئی اس میں کیمیکلز کی ملاوٹ نے تو خوفزدہ کر دیا ہے اب اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دودھ ہی سے تو چائے بنتی ہے اور بچے بھی یہی دودھ پیتے ہیں۔ اب کیا جائے تو کیا کیا جائے؟ یہ سب موت کے تاجر ہیں اور گھر گھر موت بانٹ رہے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”وہ ہم میں سے نہیں جس نے ملاوٹ کی“
اب تک تو سنتے آئے ہیں کہ دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے لیکن اب تو بات بہت آگے بڑھ چکی ہے اور دودھ میں پانی ملانا اب کوئی خطرناک بات معلوم نہیں ہوتی۔ آج مصنوعی / جعلی دودھ کی شکل میں قوم کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ پانی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
لاہور میں 70 لاکھ لیٹر دودھ فروخت ہوتا ہے۔ گائے اور بھینس کا 30 لاکھ لیٹر ۔ باقی مصنوعی یا ڈبے کا ہوتا ہے۔ انسانی صحت سے کھیلنے والے اس دھندے میں کروڑوں کما رہے ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر چھاپے اور گرفتاریاں جاری ہیں۔ لاہور تقریباً ایک کروڑ آبادی والا شہر دیگر خوراک کے ساتھ ساتھ دودھ کا استعمال صحت کےلئے انتہائی ضروری ہے۔ جعلی یا مصنوعی دودھ، انسانی صحت کےلئے زہر قاتل، معدے اور منہ کا کینسر ، ہاضمے کی خرابی، جگر کا فیل ہونا اور بچوں کی نشوونما کا رکنا اور ایسی ہی بیسیوں بیماریوں کا باعث ہے۔ اسکے استعمال اور دودھ بنانے کے دو طریقے عام ہیں۔ پہلی ترکیب میں ڈٹرجنٹ اور نباتاتی تیل ملا کر اسکا محلول بنایا جاتا ہے پھر اس میں دودھ کا ایسا پاﺅڈر جس سے تمام غذائیت اور فیٹس نکال لی جاتی ہے اور صرف لسی باقی رہ جاتی ہے ان کو مکس کر دیا جاتا ہے ۔ جو ان تمام اجزاءکو اکٹھا رکھ کر دودھ کی شکل برقرار رکھتا ہے۔ دوسری ترکیب میں ڈٹرجنٹ اور نباتاتی تیل کو ملا کر محلول بنایا جاتا ہے اور اس میں اصلی دودھ کی بہت کم مقدار شامل کی جاتی ہے۔ ان دونوں طریقوں سے دودھ تو بن جاتا ہے لیکن یہ مصنوعی یا جعلی ہوتا ہے ۔ اس کو چیک کرنےوالا آلہ ہے۔ لیکٹو میٹر جس میں دودھ کی غذائیت اور کثافت 2 پوائنٹ پر رہتی ہے جو صحیح دودھ کے برابر ہے۔ لیکن یہ مصنوعی دودھ یا جعلی دودھ صحت کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے جعلی اور مصنوعی دودھ کے خلاف مہم تیز کر دی ہے جس کے بعد پچھلے چار ماہ میں تین لاکھ لیٹر زائد جعلی دودھ ضائع کیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کیمطابق لاہور کے مختلف علاقوں میں دکانوں سے دودھ اور پانی کے نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے تھے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق پی سی ایس آئی آر لیبارٹریز نے اب تک 52 نمونوں کی رپورٹس دی ہیں۔ جن میں سے 27 نمونے ناقص نکلے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی پر سپریم کورٹ کا عدم اعتماد کا اظہار کیا اور معیاری دودھ اور پانی کی فراہمی کو عوام کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ عدلیہ بچوں کو زہریلا دودھ پلانے کی اجازت نہیں دیگی۔ زہریلا دودھ پلا کر شہریوں کو مارنے کی کوشش نہ کی جائے۔پی سی ایس آئی آر لیبارٹری کی رپورٹ میں ثابت ہو چکا ہے کہ کھلے دودھ کے علاوہ ڈبہ بند دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاﺅڈر اور کیمیائی مادے استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ ایک معروف کمپنی کے دودھ سے فارمولین نکلا جو مردہ جسم کو محفوظ کرنے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔دودھ کی زندگی دو تین دن بڑھانے کےلئے انسانی زندگی کو داﺅ پر لگانا افسوسناک ہے۔انسانی صحت اور زندگی سے کھیلنے والے کسی ہمدردی اور رعایت کے مستحق نہیں انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہئے جس کےلئے سخت قانون سازی کی جائے۔اس سلسلہ میں قانون میں موجود سقم دور کئے جائیں ۔مقدمے درج کر کے جرمانے کی سزا دینے سے اس وباءکا خاتمہ ممکن نہیں حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرنےوالوں کو کڑی سے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنایا جائے۔ ضروری ہے کہ لائیو سٹاک کا محکمہ اپنی کارکردگی بہتر بنائے اور ملک میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد میں پاکستان کی آبادی کی مناسبت سے اضافہ کرے۔ ا ڈیری فارمز میں معتد بہ اضافہ ازبس ضروری ہے ۔گوالوں کے دودھ کو ضائع کرنے سے اور ان کو جرمانہ کرنے یا کوئی قید وغیرہ کی سزا دینا، مسئلے کا حل نہیں ہے اصل مسئلے کا حل عوام تک خالص دودھ کی سپلائی ہے۔