بڑے افسوس کی بات ہے ۔ ایک۔دو نہیں۔ فریج کی پوری دو شیلف چاکلیٹس سے بھری ہوئی خالی کر دیں۔ اُوپر سے غلطی ماننے کی بجائے بحث و مباحثہ میں پڑ گئے ہو ۔ چوری کا اقرار کرنے۔ شرمندہ ہونے کی بجائے پتھر کی سی سختی لیے خود کے چہروں کو پشیمان کرتے دلائل گھڑ رہے تھے ۔آخر کار بول پڑے بیگم صاحبہ۔ چھوٹے صاحب نے ہمیں دی تھیں ۔ خود سے بھلا ہم لے سکتے تھے ۔چھوٹے صاحب اِس ساری کتھا کے ”سہولت کار“ بنے ۔ ہاتھ سے چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی ۔ ”سہولت کار“کتنا ادبی نام ۔ شاعرانہ تاثر کا حامل اِستعارہ ۔ یہ عالم کہ گلی گلی میں ڈھول کی تھاپ پر گونجنے والا گانا بن گیا ۔ وہ جنھوں نے سکول کی شکل تک نہیں دیکھی ۔ اُنکی زبانوں پر بھی ورد مانند رواں ہے۔ گھمبیر چیلنجز تھے ۔ سینکڑوں سنگین اشارے ۔ مُلکی سلامتی سے وابستہ ادارے ۔ عام آدمی سے سماجی دانشور تک بلکہ عالمی اُمور پر گرفت رکھنے والی شخصیات تک ۔ کِسی کی بات کو غور سے نہیں سُنا ۔ نہ تجویز مانی ۔ نہ کِسی مشورے پر کان دھرا اور نہ ہی انتباہی پیغامات پر پیش بندی کا سوچا ۔حالات کو ہمیشہ سے ایک آنکھ سے دیکھنے کی روش سے آج تصویر اتنی بگڑی کہ بھاری تونچانہ پُرانے نمک حرام کے سرہانے پہنچانا پڑ گیا ۔ اتنا خوف کہ مزار قائدسمیت تمام مزار ۔ پارکس بند کر دئیے گئے ۔ حکومتی طیش ۔ عوامی غیظ و غضب کی شدت سے اُنکی آرمی چیف نے پاکستانی فہرست پر کام کرنے کی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کی سر گرمیاں روکنے کیلئے کوشانہیں۔ ہمیں فہرست دوسرے ذرائع سے بھی مِلی ہے ۔ ہماری طرف سے اگر غلطی ہوتی ۔جھوٹ ہوتا تو" دوسرے ذرائع کیوں فہرست دیتے ؟ افغان مہاجرین سہولت کار ہیں۔ چوہدری نثار کو یہ بیان دینے کی صورت پیش نہ آتی ۔ ٹھوس شواہد اِس تصدیقی بیان کا سبب بنے ۔طویل وقفہ کے بعد پہلی مرتبہ اعلیٰ سطح کا قابل ستائش جذبہ تھا ۔ فیصلہ وہی کارگر ۔ مفید ہے جو مشورہ سے پہلے ہو ۔ مشورہ کے بعد نِرا جھگڑا ۔ یہی ہوا ۔ معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ۔ دانش کی بات کہنے والے کے کانوں میں پُھونک ماری گئی تو نتائج سے لاپرواہ دُو بُدو لڑائی کیلئے نفری سرحد پر پہنچا دی ۔"Lang locked country" راشن ۔ پانی تک کیلئے دوسروں کا دستِ نگر ۔ یہ شوق بھی پُورا کر دیکھے ۔ ہمارا ردعمل تو حالات ۔ ظلم و جبر کے ستائے فریق کا ہے ۔ مشرقی ۔ مغربی بارڈرز کو الاو¾ کی طرف دھکیلتے عوامل کی طرف کوئی قوت ۔ ادارہ اپنا کردار ادا نہیں کرتا ۔ جب ماحول ۔ فضا تپ جاتی ہے تو ”اقوام متحدہ“ جاگ جاتی ہے ۔ تو بی بی پاک افغان کشیدگی کم کروانے پر اگر دوڑ پڑی ہے تو بہتر ہوگا کہ کشیدگی پیدا کرنے والے سہولت کار عناصر کی بیخ کنی پر توجہ مرکوز کرے ۔ دکھ ہے کہ دنیا نے کبھی بھی پاکستان کو ملنے والی”ہمسائی دہشت گردی“کی دھمکیوں کا نوٹس نہیں لیا ۔ ممکن نہیں ۔ ہضم کرنا مشکل ہے اِس بات کو کہ صرف ”ہمسائے وار داتئیے“ہیں ۔ بغیر سہولت کے سفاکیت کی اِس حد تک نہیں جا سکتے ۔ بہترین فیصلہ ہوتا کہ پہلی واردات کے بعد ”بارڈر“کو ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جاتا۔رعونت۔ بربریت کا یہ بہت معمولی جواب ہوتا اِس تصویر کے ساتھ کہ”40سال“تک ”50لاکھ“ لوگوں کی میزبانی کی ۔ یہ ہماری سر زمین ہے ۔ صرف ہم نہیں دنیا تصدیق کر رہی ہے کہ ہم پُر امن لوگ ہیں ۔ سابق امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کی2011میں کی گئی تقریر اب عام ہوئی جس کے مطابق ”ر۱“ دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت دےکر پاکستان میں سانحات برپا کرواتی ہے اور یہ بھارت کا ایک گندہ پہلو ہے ۔ بھارت نے افغانستان کو ہمیشہ اپنی جنگ کیلئے استعمال کیا ۔ پاکستان کی زمینی حدود کی وسعت سے زیادہ مہلک اسلحہ پکڑ گیا ۔ سپلائی میں تعطل نہیں آیا تو وجہ کِسی” سہولت کار“کی موجودگی ہے ہم نہیں انھی کے سابق آرمی چیف نے اِس امر کا اعتراف کیا ہے ۔بیرونی دشمنوں سے نمٹنا مشکل نہیں۔ جب تک اندرونی معاونت کا قلع قمع نہ کیا جائے ۔ جتنے بھی مددگار ۔ معاون ہیں ۔ چاہے ایوانوں میں یا کُٹیا میں ۔ بلا امتیاز رسی کھینچ دی جائے ۔قارئین ۔ کیا آپ۔ ہم ”سہولت کار“صرف اُسی کو سمجھتے ہیں جو دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے ہیں ۔ کیا وہ اشخاص ۔ ادارے ۔ ”سہولت کار“نہیں جو دانستہ بھاری غبن ۔ تساہل ۔ کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ قوانین بناتے پھر اُسکی دھجیاں اُڑانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔
"تقسیم کار کمپنیوں ”کو سالانہ”200ارب“ سبسڈی بجلی صارفین سے وصول کرنے کا انکشاف ۔ اِس خبر کو ”حکومتی عینک“سے پڑھنے والے بجا طور پر کاروبار حکومت چلانے کی مجبوری قرار دیتے ہوئے نظر انداز کر دینگے جبکہ قوم و ملک کی محبت میں آنسو بہاتی آنکھوں والے دل مسوس رہ جائینگے ۔پھول جیسے چہرے کہ پھولوں کی سی شادابی کا عکس نظر آتے ۔ نااُمید ۔ پثرمُردہ ۔ چار سال میں”ڈاکٹر“بننے والا اتنی محنت نہیں کرتا جتنی سالہا سال دن رات پڑھنے کے باوجود ناکامی مقدر بدلنے نہیں دیتی ۔ کوئی بھی شعبہ ۔ محکمہ قباحتوں ۔ بد نظمی ۔ کرپشن سے پاک نہیں تھا کہ بات اُس ادارے تک آپہنچی جو قوم و ملک کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والوں کو منتخب کرتا ہے ۔ جی بات ہے ۔ "C-S-S" کی۔ گند یہاں بھی کم نہیں تھا مگر ڈھکا چُھپا ہوا تھا ۔ آوٹ ہوئے بلکہ اِس مرتبہ تو کُھلے عام پرچوں کی بولی لگی ۔ بروقت نوٹس لینے پر ”ڈی جی ایف آئی اے“کو مبارکباد دیتے ہوئے کہیں گے کہ عملی کاروائی ضرور ہونی چاہیے اور اِس دھندے کے بیچ سہولت کار پر ضرور کڑی گرفت کی جائے ۔ قوم کے کتنے دُکھڑے۔ غم ہیں مگر مِٹانے والا ”سہولت کار“ نا پید ۔ایک ایسی کمپنی جو پولٹری ادویات ۔ ویکسین کی غیر قانونی در آمد میں ملوث تھی اُس نے ”6سال“میں خام مال کی درآمد کی آڑ میں70لاکھ کی منی لانڈرنگ کر کے چاندی کما لی۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مال کمانے ۔ محفوظ ٹھکانے پر پہنچانے کے بعد نوٹس لے لیا کی خبر چھپتی ہے یا چھپوائی جاتی ہے ؟ ٰیوٹیلیٹی سٹورز کے مہنگی چینی خریدنے کے بعد 8 روپے کلو سبسڈی مانگنے کے بعد اعتراض کا ہے کا ؟ کیا متعلقہ۔ مجا زادارے خریداری سے بے خبر تھے یا پھر سہولت کار کی منشاءیہی تھی ۔ آجکل تو لگا تار نوٹس لیے جانے کی خبریں چھپ رہی ہیں ۔ میرٹ پامال نہیں ہونے دینگے کے ورق لگا کر ۔ اُوپر تلے بڑے بڑے عہدےداران کرپشن ۔ نااہلی پر فارغ ۔ تبدیل ہو رہے ہیں۔ یقینا یہ تعیناتی کرنیوالی شخصیات ۔ا داروں کی ذِمہ داری ہے کہ میرٹ کو پہلے ملحوظ رکھیں پامال ہونے کے بعد نہیں۔