سب ٹھاٹھ دھرا رہ جائےگا

کس درجے کی بے حسی طاری ہے پورے ملک پر اور اسکے ارباب بست و کشاد پر‘ کون ہے جو حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلوں کو قوم کے مفاد کیلئے نافذ کرے اور کون ہے جو ایسے اقدامات کرے کہ دشمن دین و ملت کا منہ بند ہو جائے۔ اعدائے ملک کے مکروہ عزائم بالکل خاک میں مل جائیں۔بس ایک انجانی سی خاموشی ہے۔ محب وطن عوام و خواص پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ان قوت والوں کو جن قوت والوں نے شر پر لوگوں کی پیٹھ ٹھونکی ہے اور ان کو کبھی خفیہ کبھی اعلانیہ اجازت دی ہے کہ وہ قوم و وطن کی قسمت سے کھیلیں ان پر اپنے ظالمانہ اور مکروہ اقدامات سے ایسا خوف طاری کر دیں کہ وہ خوف جادو میں بدل جائے اور عوام الناس اتنے بزدل ہو جائیں کہ وہ اپنی موت کی دعائیں مانگیں۔
پڑھے لکھے ، درد مند اور صاحبان بصیرت روزانہ قلم کی آبرو کے تحفظ کو اپنی آنکھوں کی بصارت اور قلب کی بصیرت کی قوت فراہم کرتے ہیں۔ احتیاط کا دامن نہیں چھوڑتے، الفاظ کی ناموس پر پہرہ دیتے ہیں۔ سوزدروں کو سطور میں سلیقہ مندی سے منتقل کرتے ہیں کبھی بے چینی میں اور کبھی کمال تحمل سے یہ مرثیہ تحریر کرتے ہیں کہ غیرت قوم کو بری طرح سے موت آ گئی ہے۔ اس غیرت کے بدن کا تقدس بعد از مرگ بھی پامال ہو رہا ہے اور اس غیرت کے قاتل پرائے تو تھے انہوں نے بھی دشمن غیرت کو اپنے ہاں سے خاموش کمک فراہم کی ہے۔لیکن عجب طرفہ تماشا ہے کہ داخلی قاتلوں نے غیرت کے مرگ پر بھی جشن قوت منانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ دن رات اندھا دھند رقص جشن قوت میں بے تال گا رہے ہیں کہ ہم ملک کو اوج ثریا کی جانب لے کر اڑ رہے ہیں۔صاحبو! یہ بے حسی، بے ہوشی بلکہ مدھوشی ایک دن ان بے خبروں کو بتا دے گی کہ تم کون تھے تم کیا تھے اور اب فطرت کے تازیانے کے اثر نے تمہارے وجود کا ہر انگ بے وزن، غیر معتدل کر دیا ہے اب تمہارا شمار انسان نما حیوانوں میں کیا جا رہا ہے۔ جبر و دہشت کے چلن نے ہزاروں کو جام شہادت چکھا دیا اور لاکھوں کو بے آسرا کیا ہے لیکن اقتدار کی بے حس اور مفلوج سوچ نے قوم کے کروڑوں افراد کو ذہنی دہشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ وجود غیرت و سلامتی کی ردائے اجتماعی کا کونا کونا داغدار ہے۔ سوراخ دار ہے۔ ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے کہ ہم بین الاقوامی سازشی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دہشت گرد سازشی اذہان نے نہایت اہتمام سے اندرون خانہ ہی سے چن چن کر کردار جمع کئے ہیں۔ ہر طبقہ حیات سے خاموشی مگر زور آور بلکہ منہ زور قسم کی قیادت کو خریدا ہے اور وہ اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق کام کر رہے ہیں قوم کو مالیاتی طور پر اتنا ضعیف کر دیا گیا ہے کہ سن کر دل دھل جاتا ہے اور ہوش اڑ جاتے ہیں۔اصلاح کار، سہولت کار، اور وہ جن کے ہاتھ میں زمام کار ہے سب ہی فروختنی ہیں۔ اخبار کے کالم نگار بار بار دھائی دیتے ہیں کہ رک جاﺅ گلشن کو اجاڑنے والے ہاتھوں کو پکڑو، صیاد کا راستہ روکو لیکن کون روکے باغبان صیاد کا دوست ہے۔ مالی سو رہا ہے۔دشمن کو دوست کہتے ہیں، ظالم کو حلیف بتاتے ہیں۔ قاتل کو مسیحا کا نام دیا ہے اور چور کو مالی کہتے ہیں۔ جاسوس کو ہنر مند کہا جاتا ہے۔ ڈاکو کو بگڑا بچہ کا نام دیا جاتا ہے۔ مال خور کو شریف کا لقب ملتا ہے اور اناڑی کو کھلاڑی کہا جاتا ہے۔بس آخر ہو رہی ہے ہر صوبے میں امن و آشتی کے مراکز مزارات، مساجد اور امام بارگاہوں کو، مدارس کو نشانہ ظلم بنانے کے بعد اب فوج اور پولیس کو بے بس کرنے کا برسر عام اور شاہراہوں پر اہتمام قتل کا چرچا ہے۔ سرحدوں کے ساتھ اور گھر کے اندر گرم و سرد جنگ کا سماں جب چاہیں برپا کردیں قوت نافذہ فوج اور پولیس جب حرکت میں آتی ہے اور سرد و گرم دشمنوں کی گردن تک ہاتھ پہنچتا ہے تو منافقین اور ظالمین کے فکری ، سیاسی سہولت کار بغل میں چھری چھپا کر رام رام جپتے ہیں اور پاکستان کے سب سے بڑے درد مند حامی نظر آتے ہیں۔بے بصیرت زبان دراز حواریوں کی ٹولیوں نے رنگیلا شاہی کی حمایت میں بیانات کی بھرمار جاری رکھی ہے۔ واعظ قوم گونگا ہو گیا ہے اور اب تو بزعم خویش صالحین بھی اپنی جیب پر ہاتھ رکھ کر خطبہ اصلاح کا آغاز فرماتے ہیں۔ شیطان نے نئے روپ دھار لئے ہیں۔ قدیم تاریخ میں اگرچہ ایسے روپ بہروپ کے آثار تو ملتے ہیں لیکن یہ رنگ نَو اسی دور میں نظر آیا ہے کہ شراب نوش، جسم فروش دنیا نے ایسا لباس زیب تن کیا ہے کہ منافقت کا سر اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ عبداللہ ابن ابی کی بھٹکتی روح اپنی اولاد جدید کو مبارک دینے آج کل ہمارے وطن پر پرواز کرتی نظر آ رہی ہے۔ہر دور کے تجربہ یافتہ بیان باز ، شرارت ساز ہر رنگ اور ہر وزن میں ان کی کشتی میں سوار ہیں اور اہل محب وطن دانا و بینا افراد کو کشتی سے نکال کر کھلے سمندر میں پھینک رہے ہیں کہ اچھے لوگوں سے کشتی کا توازن بگڑتا ہے۔ یہ کشتی نا اہل جیفہ خور، بے مروت اور بھیڑیا صفت لوگوں کیلئے بنی ہے۔ وہی لوگ اس کشتی میں سوار رہیں گے اودہم مچائیں گے۔ لیکن کب تک؟ ہر فرعون بیچ دریا کے غرق ہوا کرتا ہے۔ مظلوم عوام اور رعایا کو آخر آزادی نصیب ہوتی ہے حق غالب آتا ہے اور باطل سر نگوں ہوتا ہے۔پاکستان عطائے خدا ہے۔ عزتوں، حرمتوں ، جان اور مال کی قربانیاں اس پاک وجود وطن کے رگ و ریشہ کو قیمتی بنا چکی ہیں۔ڈاکوﺅں کو ذلت آٰمیز شکست کا پروانہ نصیب ہو۔ ڈاکو کا دفن کفن بھی ذلت آمیز ہی ہوا کرتا ہے۔ روپیہ پیسہ ، گھوڑے ہاتھی مرتے دم سینے پر سوار ہوں گے اور شیطان آخری معانقہ وقت مرگ کرے گا پھر اندھیرے اور مزید اندھیرے، دائمی اندھیرے ان ظالم ٹھگوں کا مقدر ہو جائیں گے۔ سدا بادشاہی اللہ تعالیٰ کی۔

ای پیپر دی نیشن