میری آج کی معروضات کی بنیاد بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا میونخ کا خطاب ہی ہے۔
انہوںنے پاکستان کی بدامنی کو افغان مجاہدین کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے جنہیں ہم نے سوویت امپائر کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد شتر بے مہار چھوڑ دیا تھا۔
مگر اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ ہم افغان مجاہدین کے چنگل میں پھنسے کیسے/ ہمیں بھٹو دور میں واپس جانا ہو گا جب پہلی بار گلبدین حکمت یار کو پاکستان بلوایا گیا۔ اسوقت ابھی افغان حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی مگر اس کے بعد کابل کے تخت پر لرزا طاری ہو گیااور سوویت روس کا موقف تھا کہ ا سنے اپنے مفادات اور اپنے دوستوں کو بچانے کے لئے کابل میں فوجیں اتاری تھیں جبکہ ہمیں امریکہ نے یہ سبق پڑھایا کہ روسی فوجیں گوادر کے ساحل پر قبضے کے لئے افغانستان میں اتری ہیں اور ان کی حتمی منزل پاکستان ہے جسے وہ خدا نخواستہ روند ڈالیں گی۔
اس وقت ہمارا تخت ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے قبضے میں تھا۔ اس کادعوی کے اس نے اپنے طور پر افغان جہاد شروع کیا اور امریکی صدر جمی کارٹر نے جو امداد کی پیش کش کی ، اسے مونگ پھلی کے برابر کہہ کر مسترد کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب تک روسی افواج نے پاکستا ن کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی تھی اور وہ ہماری سرحد سے دور تھیں تو ہمیں کیا حق حاصل تھا کہ کہ ہم اپنے ہمسائے کے اندر گھس کر ایک لڑائی شروع کر دیتے اورا سے جہاد کا نام دیتے۔
میں مانتا ہوں کہ روسیوں کی زارا شاہی زمانے سے خواہش تھی کہ وہ بحیرہ عرب کے گرم ساحلوں پر قابض ہوں مگر مجھے کوئی بتائے کہ کیا افغانستان کاکو ئی ایک انچ بھی بحیرہ عرب کے ساحل سے متصل تھا۔ نہیں تھا تو ہم نے کس مفروضے کی بنیاد پر سپر طاقت روس سے لڑائی کاآغاز کیا۔ اور ایک گلبدین حکمت یار کی جگہ درجنوں گلبدین روسی افواج کے خلاف جھونک دئے ۔
ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی یہ سرزد ہوئی کہ ہم نے ستر لاکھ افغان مہاجرین کو ویلکم کیا۔ افغان مہاجرین ایران بھی گئے تھے اور شاید کچھ تعداد میں آج بھی موجود ہوں مگر ایران نے انہیں کیمپوں میں بند کئے رکھااور باہر نکل کر آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت کبھی نہ دی مگر ہمارے ہاں افغان مہاجرین پاکستان کے طول وعرض میں پھیل گئے، ہم انہیں یارو مدد گارتصور کرتے تھے جبکہ یہ ہیروئن اور کلاشنکوف کی آمدنی سے بہرہ مند تھے اور مکئی کے سٹے بیچنے کی ریڑھی سے لے کر وہ ہماری ہر مارکیٹ پر حاوی ہو گئے۔ ہماری تجارت ان کے قبضہ قدرت میں چلی گئی اور ہمارے عوام ان کے گاہک بننے پر مجبور ہو گئے۔
بسم اللہ بھٹو نے کی ، اور جو کسرباقی رہ گئی تھی ،وہ ان کی بیٹی نے انجام دی۔ نواز شریف تو اپنے دورا قتدار میں افغان جہادی گروپوں کو نہ تو کبھی مکہ معاہدہ کے تحت متحد کر سکے، نہ اسلام آباد اور کابل کے معاہدے کسی کام آئے مگر محترمہ بے نظیر کے پاس کیا جادو تھا کہ ان کے دورر میں طالبان کا ایک گروہ اٹھا اور اسے کابل کے تخت پر بٹھانے کے لئے محترمہ کے وزیرداخلہ جنرل نصیراللہ بابر خود ٹینکوں پر سوار ہو کر افغانستان کے دارالحکومت تک جا پہنچے۔
آج پیپلز پارٹی صدر ضیا اور اس ملک کے دائیں بازو کو افغان جہادا ور اس کی برائیوں کے لئے مطعون کررہی ہے اور سینیٹر فرحت اللہ بابر اس حملے میں پیش پیش رہے ہیں مگر یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ افغان جہادی لیڈر حکمت یار کو پاکستان بلایا تو بھٹو نے اور طالبان کو کابل کے تخت پر بٹھایا تو بے نظیر بھٹو نے ۔
اور افغان مہاجرین کو پاکستان بھر میں کھل کھیلنے کی آزادی دی تو جنرل ضیاا ور ان کے بعد ہر آنے والی حکومت نے ، ان میں سے کوئی ا یک بھی ایران کے تجربے سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔
آج ہم ایک بات اور کہتے ہیں کہ افغانستان کے نواح میں اکیلا پاکستان ہی واقع نہیں، ایران بھی ہے ا ور وسط ایشیا کے کچھ اور ممالک بھی مگر دہشت گردی کی جنگ کی بلا صرف ہمارے ہی گلے پڑی۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی غلطیوں کا ماتم کرنے کے لئے ایک دیوار گریہ تعمیر کر لیں اور اپنے نامہ اعمال کی سیاہی آنسوﺅں سے دھونے کے لئے اس سے لپٹ لپٹ کر روتے رہیں تو تاریخ شاید ہمارے گناہوں کو تب بھی معاف نہیں کر ے گی۔
جناح پیپرز کی پہلی جلد کھول لیجئے۔ اس میں ابتدائی صفحات پر ہی افغان سفیر کا وہ خطبہ درج ہے جو انہوں نے قائد اعظم کے حضور اسناد سفارت پیش کرتے وقت دیا تھا حاضر ہوئے تو ا س موقع پر انہوںنے تسلیم کیا کہ دونوںملکوں کے مابین غلط فہمیاں پائی جاتی ہے، خدا کی پناہ ۔پاکستان اور افغانستان کے مابین غلط فہمیاں اور ان کا ذکر بھی پہلے ہی روز۔ہم نے کس امید پر اپنے میزائلوں کے نام افغان ہیروز کے نام پر رکھے۔ ہم نے کس برتے پر کہا افغانستان ہماری اسٹریٹجک گہرائی ہے۔
ہم روتے ہیں کہ امریکہ یار مار ہے، دھوکے باز ہے۔ یہ راز کب کھلا۔ چالیس بر س قبل جب ایوب خان نے اے طائر لاہوتی لکھی ۔ یا اس روز جب امریکہ ایبٹ آباد اتر کر اسامہ کی لاش لے اڑا، یا اس روز جب وہ کوٹ لکھپت جیل سے ریمنڈ ڈیوس کو لے گیا۔ یا تب جب اس نے کیری لوگر بل پیش کیا۔ یا آج جب وہ پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ہم اس سارے عرصے میں کان لپٹے کیوں سوئے رہے، اس دوران بھارتی را نے افغانستان کے چپے چپے پر اثرو نفوذ حاصل کر لیا۔ جب کل بھوشنوںنے ایرانی بندرگاہ میں دہشت گردی کا نیٹ ورک بنا لیا۔
ہمیں درمیان میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا صدمہ بھی سہنا پڑا۔ تب ہم امریکی حلیف تھے اور امریکی بحری بیڑہ آبنائے ملاکہ ہی میں پھنس کر رہ گیا، ہماری مدد کو نہ پہنچ سکا، امریکہ کے حلیف تو ہم آج بھی ہیں اور دانتوں میں انگلیاں دبا کر پوچھتے ہیں کہ کیا دوستوں اور حلیفوں سے یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ ستر سال میں ہماری افسر شاہی، ہماری حکومتیں، ہماری پارلیمنٹیں اور ہمارے خارجہ امور کے ماہرین اصحاب کہف کی طرح خواب غفلت میں مست رہے۔اب یہ کانٹے ہماری فوج کو چننے پڑ رہے ہیں، کبھی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر، کبھی میونخ جیسے فورموں پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر۔ جنرل قمر جاوید نے ایسی ہی ایک کوشش کی ہے۔
٭٭٭٭٭
افغان جہادیو ں بارے ہماری فاش غلطی
Feb 24, 2018