سپریم کورٹ نے میاں محمد نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیا ہے اور بحیثیت صدر مسلم لیگ (ن) ان کے تمام اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ جس سے اب سینٹ کے مسلم لیگی امیدواروں کی سینٹ الیکشن میں شرکت بھی ممکن نہیں رہی۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے ایک طرح کا آئینی اور جمہوری بحران پیدا ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے تمام امیدوار اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیں گے۔
پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکا بلکہ اقامہ کا سہارا لیا گیا۔ تب سے آج تک پاکستانی سیاست میں ایک ہلچل اور ہیجان کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں نقصان ملک ہی کا ہو رہا ہے۔ کوئی بھی ادارہ ملکی سلامتی جمہوری استحکام اور عوامی فلاح میں دلچسپی لینے کو تیار نہیں۔ بلکہ یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان کی ترقی کو روک کر اسے باردیگر (خدانخواستہ) سقوط ڈھاکہ جیسی صورتحال سے دوچار کرنے کی پلاننگ ہو رہی ہے۔ بلکہ ایک خبر کے مطابق پاکستان کو مزید ٹکڑوں میں بانٹنے کی پلاننگ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کر چکے ہیں۔ اب اس پر عملدر آمد کا وقت آن پہنچا ہے۔ چونکہ میاں نواز شریف کو پنجاب میں بھرپور اکثریت حاصل ہے لہٰذا اس خوفناک منصوبے کے تحت گوادر کو پاکستان سے کاٹ کر الگ کر دیا جائے گا۔ اسی طرح کراچی کو ایک فری پورٹ بنا کر اسے بھی علیحدہ کر دیا جائے گا۔ رہ جائیں گے پنجاب اور کے پی کے کٹتے کٹتے انہی دو صوبوں تک پاکستان سمٹ کر رہ جائے گا۔ ایسی خوفناک صورتحال پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں آج تک پیدا نہیں ہوئی جیسی اب بن چکی ہے۔ اداروں کو ایک دوسرے سے لڑوا کر ملک کو مفلوج کر دیا جائے گا اور پھر حتمی طور پر کوئی غیر آئینی اور غیر جمہوری حکومت ملک کا نظم و نسق سنبھالے گی۔
عدالت کی طرف سے مسلم لیگ (ن) اور خصوصاً میاں نواز شریف سے متعلق جس قسم کے فیصلے ایک تواتر کے ساتھ آ رہے ہیں عوام انہیں قبول نہیں کر رہے۔ جس کا واضح ثبوت حال ہی میں لودھراں کے ضمنی الیکشن کے نتائج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جتنا نواز شریف کے خلاف فیصلے ’’ٹھوکے‘‘ جا رہے ہیں۔ عوام میں نواز شریف کی مقبولیت اُسی قدر بڑھتی جا رہی ہے۔ ووٹ کے تقدس کا نعرہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی پارلیمنٹ و قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے قوانین کو یوں ہی رد کیا جاتا رہا اور عوامی نمائندوں کو یوں ہی چور، ڈاکو، گاڈفادر اور سسلین مافیا کہا جاتا رہا تو پارلیمنٹ کے وجود کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کو تمام اداروں کی ماں کہا جاتا ہے۔ آئین نے جس ادارے کو جو اختیارات دئیے ہیں اسے ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ورنہ تصادم کا اندیشہ لازمی ہے۔ پارلیمنٹ کے قوانین کو عدالت کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔ عدالت کا کام صرف آئین کی تشریح کرنا ہے۔ اگر کسی قانون پر عدالت کو اعتراض ہے تو وہ اسے پارلیمنٹ میں بھیجے اور پارلیمان کو اس پر نظرِثانی کا حکم دے نہ کہ یہ اپنے طور پر اس قانون کو ختم کر دے اور اپنی مرضی کے مطابق آئینی شقوں کی تشریح کر کے خطرناک قسم کے فیصلے صادر فرماتی رہے۔ عوامی نمائندوں کو کروڑوں لوگ اپنی حمایت اور ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیجتے ہیں۔ ان عوامی نمائندوں کا احترام بھی ہر ادارے پر واجب ہے اور توہین عدالت کی طرح توہین پارلیمان بھی ایک چیز ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے تمام سربراہان اور نمائندے متحد و متفق ہیں اور کوئی بھی مائنس نواز شریف فارمولے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ویسے بھی عوام کی طاقت نواز شریف کو حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کے بعد طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہی ہیں۔ عوام کے ووٹ کی عزت کرنا ہر ادارے پر فرض ہے۔ عوامی رائے کا احترام کرنا ہر ادارے اور فرد پر واجب ہے بصورت دیگر عوامی و غضب کے سامنے تو بڑے بڑے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ جمہور کی آواز کو نظر انداز کرنا، نوشتہ دیوار کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے اور اب عوام میں جمہوری شعور پیدا ہو چکا ہے۔ اس پر سوشل میڈیا نے لوگوں کو بہت متحرک اور باخبر بنا دیا ہے۔
بقول داغ دہلوی:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا!