دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت

Feb 24, 2018

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

عطاالرحمٰن چودھری صاحب نوائے وقت اسلام آباد کے کالم نگار ہیں۔مرد وضع دار ہیں والاتبار ہیں ۔میں نے ان کی شخصیت میں ایک ہمدرد،نیک طنیت اور باوقار انسان کا پیکر دیکھا۔آپ ایک ماہر تعلیم ہیں۔واہ اور ٹیکسلا کی ادبی،علمی اور سماجی زندگی کے روح رواں ہیں۔چند ماہ قبل جرمنی سے آئی ہوئی ممتاز شاعرہ اور ناول نگار محترمہ ثناء احمد کے اعزاز میں انہـوں نے واہ میں ایک تقریب کااہتمام کیا۔عطاء الرحمٰن چودھری صاحب تقریبات منعقد کرنے میں لاثانی ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت میں ’’دل کی باتیں‘‘کے عنوان سے ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں۔’’دل کی باتیں‘‘کے عنوان سے لکھے گئے کالموں کا مجموعہ شائع کررہے ہیں ۔مرزا غالب نے کہا تھا ’’دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھرنہ آئے کیوں‘‘ سنگدل اسے کہتے ہیں جو درد دیگراں سے محروم ہو۔مولانا الطاف حسین حالی نے کہا تھا …؎
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
عطالرحمٰن چودھری اس دور نا سپاس میں درد شناس ہیں۔ان کے کالموں میں ملی درد نمایاں ہیں۔اسلام اور عدلیہ اقبال کے شیدائی اور نظریہ پاکستان پر فدائی ہیں۔ان کی تحریروں میں نسل نوکیلئے تعمیری ،اخلاقی اور قومی پیغام ہوتا ہے۔علاوہ ازیں ان کی قابل صد تحسین خوبی یہ ہے کہ اپنے علاقہ کی علمی و ادبی و سماجی و سیاسی شخصیات اور تقریبات کا فراخ دلی سے اظہار کرتے ہیں جسے میں ’’سخاوت قلم‘‘سے منسوب کرتا ہوں۔’’حرمت قلم ‘‘اور ’’عصمت قلم‘‘کی پاسداری وصف و صنعت مردان حق شناس ہے۔قرآن مجید نے ’’واتعلم‘‘کے الفاظ میں قلم کی قسم کھا کر عظمت قلم بیان کی ہے۔جو لوگ تحریر و تقریر سے مطلب برداری ،حاشیہ برداری اور وظیفہ خواری کا کام لیتے ہیں وہ توہین قلم کے مرتکب ہیں۔خوشاہیں وہ لوگ جو ’’امانت قلم‘‘کے وارث و نگہدار ہیں۔یہاں لوگ امانت دار ہیں۔صاحب کردار ہیں اور باوقار ہیں۔عطاء الرحمٰن چودھری اسی صف کے سالار ہیں۔
علامہ جواد جعفری خطیب کشمیر،شاعر دلپذیر اور دانشور وادی مینو نظیر ہیں۔چند برس قبل آپ کی اردو شاعری کی کتاب بعنوان’’احتجاج‘‘منصئہ شہود پر آئی۔بازگشت آپ کے کالموں کا مجموعہ فکر انگیز ہے۔یہ بادہ تبریز ہے ، فصاحت و بلاغت کا گلدستہ دل آویز ہے۔علاوہ ازیں آپ نے کئی کتابیں تالیف کیں جن میں مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان،رئیس الاحرار چودھری غلام عباس اور میاں محمد بخش شامل ہیں۔آپ کے نانا حضرت سید رسول شاہ آف بھگرول شریف ،باغ،آزاد کشمیر کی بڑی نامور روحانی شخصیت تھے۔آپ کشمیر لبریشن سیل مظفرآباد کے ڈائریکٹر رہے۔علاوہ ازیں کشمیر کلچرل اکادمی کے بانی چیئرمین کے عہدے پر بھی متمکن رہے۔اکادمی کا ماہنامہ ’’تہذیب‘‘ شائع کیا۔آپ شعلہ بیان مقرر ہیں۔اردو اور کشمیری زبان کے شاعر ہیں۔ادبی ،مذہبی اور سیاسی معروف و مستند شخصیت ہیں۔آپکے برادر خورد شاہد عباس بھی شاعر ہیں۔ دختر نیک اختر آنسہ ملہ رخ جعفری مظفرآباد یونیورسٹی میں ایم اے اردو کی طالبہ ہیں۔ انگریزی اور اردو نثر اور شاعری سے شغف رکھتی ہیں۔گویا ہمہ خانہ آفتاب است۔ سیاست میں علامہ جواد جعفری مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کے زیر تربیت رہے۔سایہ عاطفت نے سیاست کو خدمت اور عبادت بنادیا۔لمحہ حاضر میں سردار عتیق احمد خان کے دست راست ہیں۔شاعری میں حافظ شیرازی ،مولانا رومی، غالب اور فیض احمد فیض کے گرویدہ ہیں۔جہاں دیدہ ہیں سردو گرم زمانہ چبشیدہ ہیں۔آمروں سے کشیدہ ہیں۔کشمیر کی تحریک کے گل روئیدہ ہیں۔غزل و نظم پر یکساں دسترس ہیں۔سنگ ریزے تو سنا تھا جواد جعفری نے اپنے نئے شعری مجموعے کا نام ’’سنگ زادے‘‘رکھا ہے۔’’سنگ پارے‘‘محبوبان سنگ دل ہوتے ہیں لیکن ’’سنگ زادے‘‘تخلیقی و نظری جوت ہے۔اب انسان انسان نہیں رہے۔اضام ہیں۔سرتا سرسنگ ہیں۔نہ دلوں میں سوزوگداز رہانہ فکر و نظر میں رازو نیاز رہا۔اسی مناسبت سے وہ انسانیت و امنیت کا جابجا درس دیتے دکھائی آتے ہیں۔ان کے دو شعر سنیے اور سر دھنیے؎
حصار ذات سے نکلا تو معتبر ٹھہرا
سلگتی دھوپ میں تنہا سہی شجر ٹھہرا
ترے وجود میں اک عکس اپنے ہونے کا
نظر سے دور مگر حاصل نظر ٹھہرا
بقول علامہ اقبال ؒ کتاب خواں تو بہت’’صاحب کتاب‘‘نہیں آج کاکالم چند ذی شعور اہل درد صاحبان کے نام ہے۔سرگودھا کی نامور شاعر ،محترمہ منصور صاحبہ نے اپنی شعری کلیات بھیجی۔’’کلیات نجمہ منصور‘‘میں ان کی پانچ نثری شاعری کی کتابوں کو یکجا کیا گیا ہے ’’گیلی نظمیں‘‘(2016ئ)’’تم‘‘(2001ئ)’’اگر نظموں کے پر ہوتے‘‘(1998)محبت کیون نہیں کرتے (1992) میں سپنے اور آنکھیں(1990)جو سپنے محترمہ نے 1990ء میں دیکھے تھے ہنوز وہ عالم خوابیدگی و سرشاری ہے ۔بشرط استواری ہے۔خواب میں بیداری ہے۔بقول غالب ’’ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے‘‘نثری نظم کو مستند شاعر اور ثقہ نقاد زمرہ شاعری میں نہیں گردانتے۔ انگریزی زبان میں ولیم شکسپیئر اور جان ملٹن نے قافیہ بندی کی شاعری کی مگر انہوں نے نظم مصریٰ کو مروج کیا۔ٹی ایس ایلیٹ نے آزاد شاعری کی ہئیت میں کامیاب تجربہ کیا۔
فارسی میں بھی ’’شعر نو‘‘کے عنوان سے آزاد شاعری اور نثری نظم رواج کی پذیر ہے۔عصر حاضر میں نیما یوسیج ،مہدی اخوان ثالث،احمد شاملو،فروغ فرخ زاد اور سہراب سپلہری آزاد شاعری اور نثری نظم کے نامور شاعر گردانے جاتے ہیں۔اردو زبان میں ن۔م۔راشد،اعجاز فاروقی،علی فرشی،کشور ناہید،نسرین انجم بھٹی،غردا عباس اور سارا شگفتہ نے خامہ فرسائی کی ہے اور اس صنف کو متعارف کیا ہے۔ نثری نظم کو’’نثر لطیف‘‘اور ’’شاعرانہ نثر‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں غنائیت اور موسیقیت کافقدان ہوتا ہے۔قافیہ اور ردیف کی شاعری بحر کی پابند ہوتی ہے اور ترنم کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچا نوے فی صد شاعر صرف ناظم ہوتے ہیں۔وہ وزن شعر سے پیدائشی اور فطری آگاہی اور ہم آہنگی تورکھتے ہیں مگر ان کی شاعری وجدان و فکر سے عاری اور شعریت سے خالی ہوتی ہے۔نجمہ منصور کی کلیات نے مجز نمائی اور خود آگاہی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔یہ نثری نظمیں روایتی نہیں جنہیں بی یک جنبش قلم مسترد کردیا جائے۔یہ نظمیں پیکر خلوص ہیں۔میں نے ساری کتاب کا مطالعہ کیا ۔یہ کلیات منفرد ہے۔ہجر مسلسل کی داستان ہے۔محبت کا بیان ہے وجدان ہے گیان ہے نامئہ صداقت ہے ۔غذاب آگہی ہے۔درس خودی و خود داری و خود شناسی ہے۔
انکی نظم بعنوان ’’آگہی کا غذاب‘‘ مرزا غالب کے اس مصرع’’اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی‘‘ کی مظہر ہے۔ان کے کلام میں حدت بھی ہے شدت بھی اور جدت بھی ۔’’حصار محبت‘‘کا اسیر ہیں۔تنہائی سے بغل گیر ہیں۔اداسی کے سیل تندوتیز کی شناور لیکن آسمان امید پر جلوہ گر۔’’سپنوں‘‘کی شاعرہ ہیں۔رومانوی فطرت کے ساتھ ساتھ باغی اور انقلابی مزاج رکھتی ہیں۔شاعری میں افلاطونی عشق کی غماز ہیں۔سراپا نیاز ہیں۔جنسیت کی بجائے انسیت کی ہمدم و ہمساز ہیں مشرقی رسومات کی پابند۔تلخی ہجر کو نشاط روح بنالیا ہے۔نظم ’’پناہ‘‘میں ایک فلسفی نظم ’’تم تو بس‘‘میں محب اور نظم امن کی فاختہ میں انسان دوست کا روپ عیاں ہے۔محبت ،امن اور انسانیت نجمہ منصور کے سپنے ہیں جو اس کے اپنے ہیں۔

مزیدخبریں