کہتے ہیں کسی کوچوان کا گھوڑا بیمار ہوا تو وہ کسی سیانے سے دوا لایا، گھوڑے کو دوا کھلانے کا اُسے طریقہ یہ بتایا گیا کہ دوائی بانس کی نالی میں ڈال کر ایک سرا گھوڑے کے منہ میں رکھ کر دوسرے سرے سے زوردار پھونک مارو گے تو دوائی گھوڑے کے پیٹ میں چلی جائے گی۔ کوچوان بُرے حال میں، اُلٹے قدموں سیانے کے پاس آیا۔ حالت دیکھ کر سیانے نے کہا ،’ کیا ہوا؟ کوچوان نے بتایا’ ہونا کیا تھا ، گھوڑے نے پھونک پہلے مار دی‘۔ پارلیمنٹ اپنے وقار کے تحفظ اور عدلیہ کو زیرنگیں کرنے کے لئے بل اسمبلی میں لانا چاہ رہی تھی کہ ’عدلیہ نے پھونک پہلے مار دی‘۔ گزشتہ روزعدالت ِ عظمیٰ کی جانب سے، پارٹی صدارت سے نااہلی کا مختصر فیصلہ آتے ہی ،’نون ‘ لیگ کی طرف سے جاری، عدلیہ مخالف محاذ آرائی میں شدت آتی دکھائی دینے لگی ہے،جو نظام لپیٹے جانے کی نوید بھی بن سکتی ہے، یہ جانتے بوجھتے بھی کہ اس محاذ آرائی سے کسی کا فائدہ ہو نہ ہو نقصان یقیناً ملک کا ہو گا۔ سیاسی نمائندگان جب اپنی غلطیوںکو تسلیم کر نے کی بجائے ، اداروں کو مطعون کرتے ہوئے محاذ آرائی کا راستہ اپنائیں گے تو نتائج خطرناک تو ہوں گے۔ آجکل حکمران اشرافیہ جو بیانیہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے وہ یہی ہے کہ کوئی اور بڑا فیصلہ آنے سے پہلے عدالتوں کو متنازعہ بنا کر ان کے وقار کو مجروح کیا جائے۔بصورت ِ دیگر انتشار کی فضا پیدا کرکے ملکی امن کو ہی تہ و بالا کر دیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں عدلیہ کی تاریخ شروع دن سے ہی ، قابل رشک ہرگز نہیں رہی۔ جسٹس منیر ، جسٹس مولوی مشتاق سے جسٹس افتخار چودھری تک ، عدلیہ کئی مایوس کن ادوار سے گزری ہے۔ ما رشل لاء کو جائز قرار دینے سے لے کر PCOکے تحت حلف اُٹھانے تک،بہت سی ’نیک نامیاں‘ عدلیہ کے کریڈٹ پر ہیں۔ اس کا یہ ہرگزمطلب نہیں کہ عدلیہ نے سرے سے ہی اپنا اعتبار، اعتماد اور وقار کھو دیا ہو۔ جسٹس رستم کیانی ، جسٹس کارنیلیس، جسٹس دراب پٹیل اور بہت سے ایسے نام عدلیہ کے عز ووقار کی علامت رہے ہیں۔ جس سے عدلیہ کی ساکھ اور (تھوڑا بہت) بھرم آج بھی قائم ہے۔
ضیاء کے مارشل لاء دورمیں ’نان پارٹی انتخابات نے کرپٹ پر یکٹس‘ کی بنیاد ر کھی اور سیاست کو خدمت کی بجائے کاروبار بنا دیا۔آج کرپشن اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ کرپشن پر ندامت کی بجائے اس کے دفاع پرتوانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمیں بزرگوں سے سبق ملتا تھا کہ چوری لکھ دی وی بُری، ککھ دی وی بُری‘ آج اس کا جواب یوں دیا جاتا ہے کہ ’ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی توہیں‘۔ تب اور اب میں فرق یہ ہے کی تب سیاسی جماعت سے وابستگی کی بنیاد نظریہ ہوتا تھا اور آج مفاد ہے۔ مفادات کی پٹی باندھنے والے کو ویسے ہی ’سب اچھا‘ دکھائی دیتا ہے جیسے’ ساون کے اندھے کو سب ہرادکھائی دیتا ہے‘۔
اسی تناظر میں جب ہم مسلم لیگ ’نون‘ کی ملکی اداروں بالخصوص عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی کا سلسلہ جو28 جولائی کو’ نااہلی‘ کے فیصلے سے شروع ہوا۔ گزشتہ روز پارٹی صدارت سے فراغت کے بعد،اس میں شدت آتی دیکھ رہے ہیں۔ 6 اپریل2016ء کو’پاناما پیپرز ‘المعروف ’پاناما لیکس‘ میں شریف فیملی کا نام آیا اور ان کی کئی ایک ’آف شور‘ کمپنیوں کی نشاندہی ہوئی تو ملک کے طول وعرض میںشور وغوغا بلند ہوا۔چند د نوں میں تین بار اپنے قوم سے خطاب میں سابق وزیر اعظم نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے اپنے اور خاندان کے دفاع کی مقدور بھر کوشش کی حتیٰ کہ اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر سابق وزیر اعظم نے بڑے واشگاف الفاظ میں دعویٰ کیاکہ جناب والا !یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے‘‘بعد میںجب عدالت نے منی ٹریل مانگی تو قطری شہزادے کا خط آگیا۔ عدالت عظمیٰ اور ’جے آئی ٹی‘بار بار منی ٹریل مانگتی رہی، مگر جواب میں نہ مانوں‘ کی تکرار شروع ہو گئی۔ فیصلے پر عمل کرنے کے باوجود اسے نہ ماننے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔ جی ٹی روڈ ریلی سے لے کر ہر میڈیا ٹاک اورعوامی جلسے تک عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ظفر علی شاہ شاید ’نون‘ لیگ کے واحد رکن ہیں جنہوں نے اعلانیہ نواز شریف کوعدلیہ اور اداروں سے محاذ آرائی سے اجتناب کا مشورہ دیاتھا۔ جب اس محاذ آرائی میں شدت آئی تو انہوں نے ببام نگ دہل عدالت سے نااہل کو لیڈر ماننے سے انکار کردیا۔ چودھری نثار علی نے انہیں اداروں کے ساتھ محاذ آرائی نہ کرنے کا مشورہ دیا تو وہ بھی بُرے ٹھہرے۔ اس ایشو کو لے کر’نو ن‘ لیگ میں واضح طور پر دو دھڑے بنتے نظر آئے۔ شہباز شریف، چودھری نثار علی ، راجہ ظفرالحق اور بہت سے سینئر اراکین اس محاذ آرائی کے حق میں نہیں جبکہ خواجہ سعد رفیق، طلال چودھری، دانیال عزیز، مشاہد اللہ، پرویز رشید،نہال ہاشمی، مصدق ملک، زبیر احمد،مریم اورنگ زیب اور دیگراراکین محاذ آرائی میں پیش پیش ہیں۔ گذشتہ روز احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد نئی محاذ آرائی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ ’نون‘ لیگ کی پارٹی پالیسی ہے کہ ایسا بیانیہ قوم کے سامنے رکھا جائے جس سے یہ تاثر بڑھے کہ عدالتیںمتنازعہ ہیں۔ ان پر اتنا دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ کسی بڑے فیصلے سے پہلے(جو چندروزمیںمتوقع ہے) اعتبار کھو بیٹھیں۔ اگر ان کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ آئے بھی تو لوگ فیصلہ ماننے کی بجائے عدلیہ پر چڑھ دوڑیں یوں انتشار کی فضا پیدا کی جاسکے۔یا عدالت غصے میں کوئی قدم اُٹھائے اورانہیں گرفتار کر لیا جائے کہ وہ سیاسی شہید بن سکیں۔گذشتہ روز پنجاب ہاؤس میں منعقدہ اجلاس میں نواز شریف کی جانب سے سنائے جانے والے لطیفہ کا بین السطور مطلب یہی تھا کہ انہوں نے سب اداروں کو آگے لگا رکھا ہے‘۔ محاذ آرائی کہ اس پالیسی میں انتخابی منصوبہ بندی کی جھلک بھی نظر آ رہی۔’نون‘ لیگ اپنے منصوبے میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا!!