سالانہ میزانیہ ملک کی مجموعی معیشت کا عکاس ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد پر اگلے سال کی ساری منصوبہ بندی کی جاتی ہے مگر افسوس کہ پاکستان میں سالانہ منصوبہ بندی کی کوئی تیاری ہی نہیں کی جاتی۔ فروری تقریباً ختم ہو رہا ہے، اگر یہ حکومت بر قرار رہی تو جون 2018میں اس کو اپنی اس مدت کا آخری بجٹ پیش کرنا ہے جس کے لئے کل تین ماہ رہ گئے ہیں مگر حسب معمول ہمار ے ارباب اختیار اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی ملک کی معاشی ترقی کا اندازہ اس کے وجود میں آنے سے پہلے پانچ، دس سال ہو جاتا ہے جیسا کہ بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائشیا اور برما وغیرہ کی معیشت اس وقت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔
ستر سال سے سالانہ بجٹ کا انحصار قرضوں‘ بھیک اور امداد پر ہے، اگر اس سے بھی خرچے پورے نہ ہوں تواپنے قومی اثاثے بیچ بیچ کر خرچے پورے کئے جاتے ہیں حالانکہ گزشتہ دنوں ڈیووس سالانہ اقتصادی کانفرنس میں اس بات کا شدت سے احساس کیا گیا اور وہاں ترقی یافتہ ملکوں کے شرکاء نے بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ہمیں ایسے نظام کی شدید ضرورت ہے جو دولت کی مساویانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔یہ سن کر مجھے اس وقت دنیا کے نام نہا د ترقی یافتہ اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والوں اور ان کی دانشمندی پر ترس آ رہا ہے کیونکہ یہ سادہ سی بات ہمارے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے جولائی 1948ء کوپاکستان کے مرکزی بینک کی بلڈنگ کے افتتاح کی موقع پر اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک زاہد حسین سے مخاطب کرتے ہوئے کہی تھی کہ اس وقت یورپ اور امریکہ کا سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کا معاشی نظام تباہی کی آخری حدیں چھو رہا ہے اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ دنیا کو ایک ایسا اسلامی مساویا نہ معاشی نظام دیںجو ان دونوں نظاموں کی جگہ لے سکے، ہم نے اب دنیا کو نیا معاشی نظام دینا ہے مگر ہم قائد کے خیالات کوبینک کی ویب سائٹ پر آویزاں کر کے اور مرکزی بینک کی دیوار وں پر بھی لکھ کر ذمہ داری سے فارغ ہوگئے۔
ہماری خو ش فہمی کا یہ عالم ہے کہ کبھی ہم دنیا کی بیسویں بڑی معاشی طاقت بننے کے دعوے کر رہے ہیں کبھی ہم معاشی گیم پاور کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں جب کہ 31 دسمبر 2017کے اعداد و شما ر کے مطابق ہمیں تاریخ کے بدترین مالیتی خسارے اور ملکی تاریخ کے بلند ترین قرضوں کا سامنا ہے جس کو ہمارے دعوے ختم نہیںکر سکتے ہیں اس کو صرف ہمارے زمینی حقائق کے مطابق صحیح منصوبہ بندی سے ہی حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل سے نہ وسائل کی کمی ہے اورنہ افرادی قوت کی اور نہ قابلیت کی۔
اس وقت ہمیں نیک نیتی سے اپنی معاشیات کو بہتر کرنے کے لیے اپنی معاشی ترجیحات کو عالمی اداروں کی نظرسے نہیں بلکہ اس کو پاکستان کے زمینی حقائق کے مطابق دیکھتے ہوئے اپنے آئندہ بجٹ میں بنیادی اہمیت دینی ہو گی، اس کے لیے سب سے پہلے اپنے پیداواری عمل کو وسعت دینی ہو گی اس کے لیے ٹیکسٹائل اور لیبر کے علاوہ ماربل‘ آٹو انجینئرنگ، کیمیکل صحت، ڈیری فارمنگ بڑے اور چھوٹے ڈیموں کی طرف توجہ دینی ہو گی، کیونکہ آج دنیا کے جن ملکوں نے معاشی ترقی کی ہے انہوں نے تمام شعبوں پر توجہ دی مگر ہمیں عالمی مالیاتی اداروں نے اپنے وفاداروں کے ذریعے آزاد اور خودمختار معاشی نظام کی طرف بڑھنے ہی نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستان ایک درآمدی ملک بن کر رہ گیا۔
حالانکہ ہمیںاپنی برآمدات پر توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے۔ وہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اپنی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھائیں اور اپنی لاگت کم کرنے کے لئے اقدامات کے جائیں کیونکہ بین الاقوامی خریدار ہماری شکل نہیں دیکھتا وہ قیمت اور کوالٹی دیکھتا ہے جب ہماری پیداواری لاگت جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا مالیاتی خسارہ اس وقت تاریخ کی انتہائی بلندیوں پر ہے اس کے علاوہ برآمدگان کے تقریباً 250 ارب روپے ریفنڈ کی صورت میں حکومت کے پاس پڑے ہیں جسکا ملکی برآمدات پر گہرا اثر پڑ رہا ہے برآمدات بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ سرکاری اداروں کی مداخلت کم سے کم ہو تاکہ صنعت کار اپنی پوری توجہ برآمدات بڑھانے پر دیں۔
حکومت کو برآمدات بڑھانے کے لیے تیار شدہ مصنوعات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس ملک میں زرمبادلہ زیادہ آتا ہے جبکہ ابھی تک ہماری پالیسیوں میں خام مال برآمد کرنے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور اشیاء کی بحیثیت وزن مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ڈالر کی صورت میں کم ہو رہا ہے یہ ٹھیک ہے کہ اس حکومت کو گزشتہ چار سال میں مختلف دھرنوںعدم استحکام پیدا کرنے والوں کا بھی سامنا رہا۔
یہ ٹھیک ہے کسی وقت کوئی قابل انتظامی آفیسر آئے تومعاشی فیصلوں میں مثبت تبدیلی آتی ہے مگر یہ دیرپا ثابت نہیں ہو تی کہ افراد کی تبدیلی سے فیصلے بھی وقتی اور مصنوعی ہوتے ہیں جیسا کہ اس وقت وزارت تجارت میں سیکرٹری کی حیثیت سے کوئی مثبت سوچ رکھتے ہیں تو گزشتہ چھ ماہ ہماری برآمدات اوسطاً آٹھ فیصد بڑھ رہی ہے اس لئے اپنی پالیسی میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ افراد کے آنے جانے سے پالیسیوں میں تبدیلی نہ ہو۔ ٹیکس ادا کرنا ہرذمہ دار شہر ی کا فرض ہے اور کوئی معاشرہ یا قوم ترقی نہیںکر سکتی جب تک وہ ٹیکس ادا نہ کرے۔ ہمارے ہا ں بیس سے بائیس کروڑ کے لو گوں پر مشتمل اس ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد صرف 12لاکھ ہے جن کی اکثریت تنخواہ دار افراد کی ہے۔ اس لیے ٹیکس بڑھانے کی بجائے ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
دستاویزی معیشت کو عملی صورت دینے کے لیے بڑی آسانی سے ایک این آئی سی کارڈ کی مدد سے نافذکیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں کالے دھن کی جنت جائیداد وں کی صورت میںبنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی صنعت و تجارت میںلگا ہوا اربوں روپے کا سرمایہ اس کی نذر ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری اور صنعتوں میں تبدیلی کی صورت میں نتیجہ آچکا ہے اگر آج بھی یہ حکومت اپنے 2014کو بنائے گئے جائیداد وں کے قانون کو نیک نیتی سے نافذ کرے تو آج بھی نہ صرف ایک طرف عام آدمی کا اپنا گھر کا خواب پورا ہو سکتا ہے تو دوسری طرف یہ سرما یہ واپس صنعت و تجارت میں لگا کر ملک کی ترقی کا سبب بن سکتا ہے، اپنی کرنسی کی قیمت کسی صورت کم نہ کی جائے ۔ اس وقت امریکہ، بھارت اور اسرائیل برطانیہ جرمنی اور فرانس کو ملا کر ہمارے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں اس کے لیے ہمیں اپنی اندرونی لڑائی کو ایک طرف رکھ کر چین روس ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر بند باندھنا چاہیے ۔