منتخب ناظمین کاغذی کارروائیاں کب تک:

وزیراعظم عمران خان کے بعد پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے مقبوضہ کشمیر کے پلوامہ واقعہ پر فوج کے جذبات کی ترجمانی کی ۔ جچے تلے الفاظ میں امن اور جنگ کے حوالے سے باتیں کی ہیں جو زیادہ تر بارڈر کے اس طرف غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے والوں کے لئے تھیں اچھی خبر قوم کے لئے یہ تھی کہ وہ اپنی اور وطن عزیز کی محافظ فوج پر بھروسہ رکھے یہ درست کہ دنیا کی صف اول کی جانباز فوج اپنے حصے کا کام کر رہی ہے مگر کیا عوام کی سطح پر سول ادارے، بلدیات سے لے کر پارلیمنٹ تک منتخب نمائندے بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑا سوال ہے اور جب دروازے پر دشمنوں کی دھمکیوں کی آہٹ سنائی دے رہی ہو تو اس سوال کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان اسمبلی کا لیول اور طرح کا ہے اسے چھوڑیے صرف شہروں میں موجود نمائندوں کو لیجیئے۔ لاہور کو دیکھیں (یہی حال پنجاب اور دوسرے صوبوں کے بڑے شہروں کا ہے) بلدیاتی نمائندے موجود ہیں معطل نہیں ہیں یونین کونسلوں سے لے کر ایک درجن سیکم ڈپٹی میئرز اور ایک میئر صاحب کو قانون کے تحت تمام پروٹوکولز اور اختیارات حاصل ہیں لیکن شہریوں کو وہ کچھ نہیں مل رہا جس کی انہیں ضرورت ہے صفائی کا نظام درہم برہم ہے تجاوزات ایسی کہ شہر برباد ہو کر رہ گیا ہے کوئی ان اہلکاروں، ان کے افسروں کو پوچھنے والا نہیں جو ان کروچمنٹ کے نام پر ایک صبح کو عارضی تجاوزات پر مبنی سامان، ریڑھیاں، کھانے پینے کا سامان فروٹ حملہ آور دستوں کی شان سے اٹھا کر ٹرکوں میں بھر کے لئے جاتے ہیں اور اگلی شام پھر وہی منظر وہی عارضی تجاوزات انہی مقامات پر موجود ہوتی ہیں۔ یہ سارے سامان، ریڑھیوں، پھٹوں کی واپسی بلاوجہ تو نہیں ہو جاتی ہے گویا شہریوں کے ساتھ ایک مذاق اور منافقت کی جا رہی ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس لاہور میں کینٹ کنٹونمنٹ کے ان علاقوں میں نظر نہیں آتا جو انتظامی طور پر بالواسطہ فوج کے پاس ہیں اس پس منظر میں کیا بلدیاتی اہلکار افسران اور منتخب عوامی نمائندے اپنی جیبیں بھرنے کے الزام سے بچ سکتے ہیں نظر آ رہا ہے کہ یونین کونسلوں کے ارکان، ناظم صرف ’’شوبازی‘‘ یا اپنے کام نکلوانے کے لئے ان عہدوں پر فائز ہیں ورنہ جن جمہوری معاشروں کی تقلید میں لوکل گورنمنٹ کا تصور اپنایا گیا ہے اور خدمت خلق کے نعرے کے ساتھ ووٹ مانگے جاتے ہیں وہاں تو ایسا نہیں ہوتا وہاں تجاوزات کے خاتمے کے نام پر صبح کو ختم کی گئی تجاوزات شام کو دوبارہ قائم نہیں ہوتیں وہاں منتخب نمائندے مسلسل یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے حلقہ میں کہاں سے سڑک ٹوٹ گئی ہے کہاں لوگوں کو پانی فراہم کرنے والا پائپ خراب ہے یا پانی کا بہاؤ کم ہے کیا صحت اور تعلیم کے حوالے سے سہولتیں نہیں ہیں۔ منتخب نمائندے از خود ہر بات کا نوٹس لیتے ہیں خوداختیار نہیں تو متعلقہ اتھارٹی تک رپورٹ کی جاتی ہے ہمارے شہروں کا حال تو بہت بُرا ہے کیا لاہور صرف شاہراہ قائداعظم کا نام ہے کہ صرف وہاں قانون نافذ رہے، شاہراہ قائداعظم سے رنگ روڈ براستہ مغل پورہ نہر کے دونوں طرف سڑکیں چوڑی ہو گئیں اور لوگ ملحقہ بستیوں کے عذاب میں مبتلا کر دیئے گئے کیا ملحقہ علاقوں کے ناظمین نے ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی نے کبھی دیکھا کہ مغلپورہ سے رنگ روڈ تک نہر پر ملحقہ آبادیوں کے لئے صحیح راستے نہ رکھے جانے کے باعث روزانہ کتنے حادثے ہو رہے ہیں کیا ٹریفک پولیس کے حکام متعلقہ اتھارٹی کو اس صورت حال کی رپورٹ کی سب اپنا اپنا وقت گزار رہے ہیں مگر اب وقت آ گیا ہے کہ اپنا اپنا وقت گزارنے کی بجائے سب اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پاک فوج نے بارڈر کے باہر سے کسی ایڈونچر کی خواہش رکھنے والوں کو چتاونی دے رہی ہے کہ اب اگر چھیڑا گیا تو پاک فوج دشمنوں کو حیران کر دے گی اگرچہ بھارت کے مقابل اور کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی ساری سیاسی قیادت متحد ہے لیکن اگر روٹ لیول پر یعنی لوکل باڈی گورنمنٹ، یونین کونسلوں کی سطح تک اہلکار، افسر اور منتخب نمائندے لوگوں کے مسائل دیانت داری سے حل کرنے کا آغاز کر دیں تو مطمئن عوام اور زیادہ طاقت بن کر اپنی فوج کے پیچھے کھڑے ہوں گے یہی وقت کا تقاضا ہے اور زندہ قوم کی نشانی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...