چیف جسٹس آف پاکستان " پھر سے پکارا ہے"
ہستی کا کاغذ بھی دریدہ دل ، روح پارا ہے
غاصب ہیں کیوں ہم پر غالب اتنا پتہ چلے
ختم کریں نا انصافی کو جان بے تارا ہے
ہری ہری دھرتی کے مالک ہم اہل ۔ پرچم
پر ، اہل - ظلمت نے زخمی کردیا سارا ہے
سچ بولوں تو کْھلتے ہیں پھر قید قفس کے در
لہو لہو خاموشی مری چیخوں کا دھارا ہے
جبری قیامت چودہ سالہ سہہ سہہ کر بولی
بس کر دیجے ظلم و تشدد سچ آشکارا ہے
ربط میں کب میزان ترازو، سر زنش میزان
جائیں کہاں مظلوم کی آہیں کب کوئی چارا ہے
میں کہتی ہوں غ غیوری ، غیرت سے انسان
اہل - غبن پڑھاتے ہیں مجھے غ غبارہ ہے