سیاسی استحکام ضروری مگر کیسے؟

ایک دن پہلے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حسب معمول گرجتے برستے ہوئے کہا ہے کہ ’’حکومت گرانے کے لیے ان ہائوس تبدیلی اور نئے انتخابات سمیت تمام آپشن کھلے ہیں۔‘‘ امریکہ کو چھوڑ کر دُنیا بھر کی جمہوریتوں میں ایسا ہونا یعنی حکومتوں کا گرانا کوئی اچنبے کی بات نہیں، اگر یہاں بھی کوئی ایسی کارروائی ہوتی ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہو گی۔ خصوصاً وہ حکومتیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کے سہارے کھڑی ہوں، گرانے والوں کا بڑا آسان شکار ہوتی ہیں ۔ اقلیتی حکومتوں کو اتحاد برقرار رکھنے کے لئے اتحادیوں کے جائز و ناجائز مطالبات تسلیم کرنا پڑتے ہیں۔ اس صورت میں ملک میں ترقی کی پیش رفت بہت متاثر ہوتی ہے۔ سارا وقت اور وسائل کا معتدبہ حصہ اتحادیوں کو خوش کرنے پر صرف ہو جاتا ہے۔ بہت سی جماعتوں پر مشتمل حکومتیں ، جرأت رندانہ سے بھی محروم ہوئی ہیں۔ اگر اس کے ارکان میں ’’ہاکس‘‘ جوشیلے زیادہ ہوں، تو اُس کے وقت سے پہلے کرسیٔ اقتدار کو داغ مفارقت دینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اصل میں اب جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے، وہ بہت سے مفروضوں کا نتیجہ ہے۔ پی ٹی آئی نے انتخابات میں کچھ وعدے ایسے کئے، جن کا پورا کرنا، صاف نظر آ رہا تھا کہ ممکن نہیں بے بنیاد دعوے کئے، کوشش یہ کی گئی کہ مسلم لیڈروں (مثلاً مولانا فضل الرحمن اور بعض دوسرے اصحاب) کو پارلیمنٹ میں نہ آنے دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم و بیش تمام جماعتیں اور مولانا فضل الرحمن تو انتخابات سے سخت شاکی تھے، مولانا کو نون لیگی اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے ٹھنڈا کیا، ورنہ وہ تو اگست 18 میں ہی پھڈا ڈالنے والے تھے۔ اُن کے مقابلے میں جیتنے والے یا مولانا کو ہرانے والے مارے خوشی سے جامے سے باہر ہو رہے تھے، اور جن میں ذرا بھی دوراندیشی تھی، اُنہیں وہ دہقان یاد آ رہا تھا، جس نے نہایت رعونت سے سرکاری اہلکار کو گنا دینے سے انکار کر دیا۔ مگر جب ہتھکڑی دیکھی تو ہاتھ باندھ کر گڑکی روڑی پیش کرنا پڑی اور ناک سے لکیریں بھی نکالیں۔
اگر مولانا فضل الرحمن کی تحریک پر دونوں بڑی جماعتیں اُٹھ کھڑی ہوتیں تو دہقان کے بیلنے والا سماں بندھ جاتا۔ سیاست، بڑھکوں کا نہیں حکمت کا نام ہے۔ کمال مخالفین کو ٹھکانے میں نہیں ، بلکہ اُنہیں رام کرنے میں ہے۔ مگر حکومت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ جمہوریت پسند، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پانچ پانچ سال پورے کرنے کو پاکستان میں ڈیموکریسی کے لیے نیک شگون قرار دے رہے تھے۔ انتخابی نتائج جیسے بھی تھے ، دونوں بڑی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں تحریک انصاف بھی پانچ سال پورے کرے مگر یار لوگوں نے سیاسی مخالفین کا شکار شروع کر دیا۔ جسے دیکھو، پلے دھیلہ نہ ہونے کے باوجود میلہ میلہ کر رہا تھا۔ تاریخ نے جن لوگوں کو ریفارمر اور مصلحین قرار دیا ہے۔ وہ لٹکانے میں یقین رکھنے کے بجائے گلے سے لگانے کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔
معاشی حالات کسی طور بھی خوش کن اور اطمینان بخش نہیں، حکومت پراپیگنڈہ سے مخالفین کی اتنی کردار کشی نہیں کرسکی ،جتنی مہنگائی نے حکومت کی نیک نامی کو متاثر کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک دفعہ اسلام آباد دھرنا دے کر بہ ظاہر بے نیلِ مرام واپس لوٹے، اُن کی واپسی آرمیڈا کی شکست کی طرح برٹش فوجوں کی بجائے سمندری طوفان کی ’’شجاعت‘‘ کا نتیجہ تھا۔ مولانا کے دھرنے میں حکومت کی خوش نصیبی میں سخت سردی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ شُنید ہے کہ مولانا کو کسی دانائے راز نے مشورہ دیا تھا کہ چندے صبر کریں، پی ٹی آئی کی حکومت مخالفین کے ساتھ وہ سلوک کرنے والے ہیں کہ سب آپ کی چھتری کے نیچے آ جائیں گے لیکن مولانا قِلت صبر کے مریض نکلے اور حالات کے خود بخود سازگار ہونے کا انتظار نہ کر سکے۔
ایف اے ٹی ایف سے جون تک بڑی مشکل اور دوستوں کی مدد سے نکل آئے ہیں۔ شکر کریں کوئی نئی پابندیاں نہیں لگیں۔ ورنہ سیاستدانوں کا کچھ ہی نہیں جانا تھا۔ غریب کا بُرا حال ہوتا۔ ٹرمپ چھوڑ کوئی بڑا پھنے خاں بھی، کشمیر کے مسئلے پر بھارت سے ثالثی نہیں کرا سکتا۔ اس لیے کہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ مودی اینڈ کمپنی ہندوتوا کے کروڑوں پیروکاروں کی خواہشات کے برعکس کوئی راہ اختیار کر کے سیاسی طور پر زندہ نہیں رہ سکے گی لہٰذا ہم نے جو ثالث تراش رکھے ہیں وہ خواہ کتنے ہی بااثر اور نیک نیت ہوں بے بس ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اور مسئلہ کشمیر کا حل صرف ایک ہے اور وہ ہے پاکستانی قوم کا سیسہ پلائی دیوار ہونا اور یہ دشمن کو بھی پتہ ہے کہ ہمارے مقبول ترین لیڈر کی مقبولیت بھی کتنی ہے۔ عمران خان یقیناً تاریخی کارنامے انجام دینا چاہتے ہیں لیکن ایسے کام صرف وہی لیڈر کر سکتا ہے ،جس کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہو۔ ہم اس معاملے میں کوئی رائے نہیں دیں گے۔ آپ خود بھی جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔
لٹکانے سے قومیں ترقی کرتی ہوتیں تو نوے کے عشرے کا بھارت آج دُنیا کی تیسری بڑی معیشت نہ بنتا۔ ہماری ساری کمزوریوں کا باعث صرف یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سیاسی حریف سمجھنے کے بجائے ، روائتی ، ’’ویری‘‘ سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بیماریوں بلکہ مرگ پر خوش ہوتے ہیں۔ ناکامیوں پر خوش ہوتے ہیں۔ روپے کی قدر کم ہو جائے تو خوش ہوتے ہیں، مہنگائی بڑھ جائے تو خوش ہوتے ہیں۔ نیب بلاتحقیق مہینوں نظر بند رکھے تو خوش ہوتے ہیں ، جس قوم کی یہ حالت ہو، وہ کبھی استحکام کی برکت سے بہرہ ور نہیں ہو سکتی اور استحکام سے محروم قوموں کی مدد کے لئے فرشتے نہیں، بلکہ نحوستیں اُترا کرتی ہیں۔ حکومت چونکہ اقتدار میں ہے۔ اس لئے استحکام بھی وہی پیدا کر سکتی ہے۔ حکومت کو سب سے زیادہ توجہ عدم استحکام کی بیماری دور کرنے پر دینی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن