پنجاب میں جیلوں کی صورت حال پر ہم پہلے بھی کئی کام لکھ چکے ہیں جس میںہم نے جیلوں میں ہونے والی کرپشن اور اس کے طریقہ کارپر بھی تفصیل سے لکھا تھا اس سلسلے میںہماری ایڈیشنل سیکرٹیری جیل اور ایک سنیئر آفسیر سے ملاقات بھی ہوئی تھی جس میں ہم نے انہیں کرپشن کے نت نئے طریقوں سے آگاہ کیا تھا۔چند روز قبل ہمیں ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ایک سنیئر آفسیر کی کال آئی تو کہنے لگے کہ تم لوگوں کی بہت خدمت کر رہے ہو۔میں آپ کے کالم پڑھتا رہتا ہوں۔خیروہ جب اصل موضوع کی طرف آئے تو کہنے لگے یا ر آپ نے جو ہمیں جیلوں کا نقشہ بتایا تھا ہوبہووہی کچھ سنٹرل جیل ملتان میں تھا وہ کہہ رہے تھے کہ واقعی جیلوں میں مبینہ کرپشن بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے اور اب ہم اس کے خاتمے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔سنٹرل جیل ملتان میں کرپشن پکڑے جانے کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ صوبائی ہوم سیکرٹری مومن علی آغا کو ارسال کر دی گئی تھی جس میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ جیل سپرنینڈنٹ اور ڈپٹی سپرنینڈنٹ سمیت بائیس ملازمین کو ملازمت سے معطل کرکے ان کا کیس اینٹی کرپشن کو بھیجا جائے لیکن بد قسمتی سے انگریزی معاصر میں یہ خبر قبل از وقت شائع ہونے کے بعد معاملہ ابھی تک التواء میں ہے تاہم ہمیں حیرت اس بات کی ہے کہ اگر خبر شائع ہو ہی گئی تھی تو رپورٹ پر کارروائی کیوں نہ ہو سکی۔ہمیں افسوس ہے کہ اگر شاہد خان جیسے سیکرٹری داخلہ ہوتے یا ڈاکٹر جمال یوسف جیسے ایڈیشنل سیکرٹری ہوتے تو اب تک یہ ملازمین جیلوں میں ہوتے ۔ اگر کرپشن پکڑے جانے کے بعد بھی ایسی رپوٹوں پر کارروائی نہیں ہوگی تو اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ یا تو اوپر سے کوئی سفارش آگئی یا پھر معاملہ کوئی اور ہے۔خبر پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے شعبہ مانٹیرنگ نے جب اچانک ملتان سنٹرل جیل میں چھاپہ مارا تو بشمول افسران بڑی تعداد میں ملازمین کرپشن میں ملوث پائے گئے غالبا یہ پہلا موقع ہو گا کہ کسی جیل کے اتنی بڑی تعداد میں ملازمین کو ملازمت سے معطل کرنے اور ان کا کیس انسداد رشوت ستانی کے سپرد کرنے کی سفارش کی گئی ہو۔ لیکن اگر اتنی وسیع پیمانے پر کرپشن سامنے آنے کے بعد کارروائی نہ کی جائے تو اس کا مطلب کرپشن میں ملوث ملازمین کی حوصلہ افزائی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ کرپشن کی رقم صرف سپرنینڈنٹ اور ڈپٹی سپرنینڈنٹ ہی وصول نہیںکرتے ہیں بلکہ یہ رقم ریجن کے ڈی آئی جی اور آئی جیل خانہ جات تک جاتی ہے انتخابات سے قبل ہم اخبارات میں پڑھا کرتے تھے کہ تحریک انصاف حکومت ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردئے گی لیکن اگر یہی صورت حال رہی تو پھر کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ کرپشن کو فروغ ہو گا۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ملتان سنٹرل جیل میں صرف قیدیوں سے ہی نہیں بلکہ ملاقاتیوں سے بھی رشوتلی جاتی ہے لنگر خانے اور فیکٹری میں جن قیدیوں کی مشقت ہوتی ہے انہیں مشقت سے استثنیٰ دینے کے عوض بھاری رشوت لی جاتی ہے جیلوں کے ملازمین بہت سے ایسے قیدیوں کے لواحقین سے تعلقات بھی قائم کر لیتے ہیں رپورٹ میں ملتان جیل کا ایک واقعہ رپورٹ کیا گیا ہے جس میں ایک قیدی کی اہلیہ سے جیل ملازم نے تعلقات استوار کر لئے تھے جس کے بعد قید ی نے اپنی بیوی کا طلاق دے دی۔پنجاب حکومت نے خیبر پختونخوا کی طرز پر لمبی قید بگھتنے والے قیدیوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے کے لئے پنجاب کی بعض جیلوں سے ملحقہ اراضی پر کواٹر تو تعمیر کرائے تھے لیکن کئی سال گذرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکاہے لہذا پنجاب حکومت کو اس معاملے کی طرف بھی فوری توجہ دینے کی ضروت ہے اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو بہت سی برائیوں کے خاتمے میں مد د لے گی۔ رپورٹ میں جیل میڈیکل آفسیر کے خلاف بھی کارروائی کرنے کے لئے لکھا گیا ہے قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس وقت پنجاب کی جیلوں میں سنٹرل جیل راولپنڈی، سنٹرل جیل فیصل آباد، کیمپ جیل لاہور، سنٹرل جیل کوٹ لکھپت ،ڈسٹرکٹ جیل گجرات، ڈسٹرکٹ جیل جھنگ، ڈسٹرکٹ اور سنٹرل جیل ملتان کو جیلوں کی زبان میںسونے کی چڑیا کہا جاتا ہے جیلوں کے ملازمین کی پوسنٹگ کا جو طریقہ کاراس وقت رائج ہے اس کے مطابق جب کسی ہیڈ وارڈر کو شکایت کی صورت میں جیل سے بدل دیا جاتا ہے تو چھ ماہ کے بعد وہ ملازم ڈی آئی جی آفس میں نذرانہ دے کر واپس اسی جیل میں آجاتا ہے یا پھر وہ اپنا تبادلہ ڈی آئی جی آفس کرا لیتا ہے جہاں سے وہ تھوڑے عرصہ کے بعد واپس پرانی جیل میں آ جاتا ہے ڈی آئی جی آفس میں تبادلہ کرنے سے وہ اپنا سرکاری کواٹر بھی بدستور اپنے استعمال میں رکھتا ہے جیلوں میں رشوت کا مال جمع کرنے والے اصل میں ہیڈ وارڈر ہوتے ہیں کیونکہ بیرکوں اور سنٹرل ٹاور میں انہیں ہی لگایا جاتا ہے لہذا وہی مال پانی جمع کرنے کے بعد ڈپٹی سپرنینڈنٹ (ایگزیٹو)کو دیتے ہیں جو آگے سپرنینڈنٹ جیل کو دیتا ہے جس کے بعد بالحاظ عہدہ سب اچھے کی رقم آگے بھیجی جاتی ہے پنجاب حکومت کو جیلوں میں کرپشن کے خاتمے کے لئے فوری اقدامات کے طور پر بہت سی مانٹیرنگ ٹیمیں تشکیل دینی چاہیں تاکہ وہ مختلف اوقات میں جیلوں میں اچانک چھاپے مار کر کرپشن میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کر سکیں لیکن اس کام میں کامیابی صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب انفرادی طور پر قیدیوں سے جیلوں کی صورت حال کے بارے میں دریافت کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو جیل ملازمین سے تحفظ کی ضمانت بھی دی جائے ورنہ اگر کوئی قیدی کسی جیل افسر یا ملازم کے خلاف شکایات کرئے گا تو اگلے روز وہ کسی دوسرے جیل میں ہوگا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار جو ایک اچھی شہرت رکھتے ہیں انہیں اس بات کو بھی نوٹس لینا چاہے کہ وہ جیل افسران کو سونے کی چڑیا والی جیلوں میں وقفے وقفے سے اپنی پوسٹنگ کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس کا راز کیا ہے لہذا جب تک اس طرح کی خرابیوں کا ختم نہیں کیا جاتا جیلوں سے کرپشن کا خاتمہ ایک خواب رہ جائے گا۔