جمعیت علما ء اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے گذشتہ سال اکتوبر کے اواخر میں عمران حکومت گرانے کے لئے وفاقی دارالحکومت پر’’ یلغار ‘‘ کی اور دو ہفتے تک اپنے ’’سیاسی لشکر‘‘ کا ’’پشاور موڑ پر پڑائوڈالے رکھا اور پھر اچانک اپنی خالی ’’ٹوکری ‘‘اٹھا کر واپس چلے گئے ۔ یہ ایسا عقدہ ہے ابھی تک حل نہیں ہوا کہ مولانا فضل الرحمنٰ ’’خاموشی ‘‘ سے کیونکر چلے گئے اقتدار کے ایوانوں میں ابھی تک یہ عقدہ حل نہیں ہوا کہ آخر وہ کس کی’’ یقین دہانی ‘‘ پر بوریا بستر اٹھا کر چل دئیے؟ وزیر اعظم عمران بھی اس یقین دہانی پر پریشان دکھائی دیتے ہیں گذشتہ ہفتہ ’’کپتان‘‘ سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کی’’ جنگجویانہ سیاست‘‘ پر سوال داغ دیا تو وہ بپھر کر بول اٹھے ’’مولانا فضل الرحمنٰ بیان پر ان کے خلاف تو آئین کے آرٹیکل6کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے ۔ معلوم ہونا چاہیئے کہ مولانا فضل الرحمان کس کے اشارہ پر حکومت گرانے آئے تھے دیکھنا یہ ہے ہم نے مولانا فضل الرحمنٰ کے بیان پر کیا کریں گے جب میں نے ان سے بار بار پوچھا گیا کہ وہ کیا کریں گے توانہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمنٰ کے خلاف آئین 6لگانے کی بات کہہ کر ’’پنڈورہ باکس ‘‘کھول دیا ہے کیونکہ ان کے سیاسی مخالفین 2014ء میں اسی ’’جرم‘‘ کے ارتکاب پر ان کے خلاف اسی آرٹیکل کے تحت مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں ہوا بھی وہی ادھر عمران خان کا بیان آیا ادھر اپوزیشن نے شدید ردعمل کا اظہار کر دیا پوری اپوزیشن مولانا فضل الرحمنٰ کی پشت پر کھڑی ہو گئی اور عمران خان کو چیلنج دے دیا کہ ’’وہ مولانا فضل الرحمنٰ کے خلاف مقدمہ کر کے تو دیکھیں ‘‘ لیکن حکومت نے اس روز پسپائی اختیار کر لی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کو وضاحت کرنا پڑی کہ وزیر اعظم عمران خان نے محض سوال کے جواب میں بات کہی ہے حکومت مولانا فضل الرحمن کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی وزیر اعظم سب کچھ جانتے ہوئے بھی مولانا فضل الرحمنٰ کو کس نے یقین دہانی کرائی ہے اس کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے میں کون سی قوتیں سرگرم عمل ہیں ۔ مولانا فضل الرحمنٰ کو مارچ میں سیاسی منظر تبدیل ہونے کی یقین دہانی کے گواہ ’’چوہدری برادران‘‘ بتائے جاتے ہیں انہوں نے بھی مولانا فضل الرحمنٰ کے دعوے کا بھرم برقرار رکھا ہو ا ہے شاید یہی وجہ ہے عمران خان ’’چوہدری برادران‘‘ سے ناراض ہیں جب کہ چوہدری برادران ‘‘ کا کہنا ہے کہ ہم نے مولانا فضل الرحمنٰ کو دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کیا لیکن ہم پر ہی شک کیا جانے لگا ۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مولانافضل الرحمن کو گذشتہ سال اسلام آباد پر ’’یلغار‘‘ کرنے کی جلدی تھی انہوںنے اپنے اتحادیوں کی جانب سے کچھ دنوں کے لئے ’’آزادی مارچ‘‘ موخر کرنے کا مشورہ قابل درخور اعتنا سمجھا اور نہ ہی ’’دھرنا ‘‘بارے میں کسی کو ’’رازداں ‘‘ بنایا ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے تو شروع دن سے مولانا فضل الرحمنٰ کو اپنی ’’مجبوریوں‘‘ سے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ ایک حد سے آگے نہیںجائیں گے بلاول بھٹو زرداری نے تو مولانا فضل الرحمنٰ سے لگی لپٹے رکھے بغیر کہہ دیا تھا کہ ہم سیاسی طاقت سے حکومت گرانے کے حق میں نہیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آج عمران حکومت کو ’’سٹریٹ پاور‘‘ سے گرایا گیا تو کل ان کی سندھ حکومت کی باری ہو گی ۔ یہی وجہ ہے مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمنٰ کے ’’آزادی مارچ‘‘ کی سیاسی و اخلاقی حمایت تو ضرور کی لیکن اس میں ’’علامتی‘‘ شرکت کی ۔میاں نواز شریف علاج کے لئے بیرون ملک چلے گئے اور آصف علی زرداری ضمانت پر رہائی کے بعد کراچی میں’’ خاموشی‘‘ سے اپنی زندگی گذا رہے ہیں سیاسی حلقوں میںیہ تاثر دیا گیا کہ دونوں رہنمائوں کو مولانا فضل الرحمنٰ کے دھرنے کی وجہ سے ریلیف ملا ہے ممکن ہے اس تاثر میں کسی حد تک صداقت ہو لیکن میاںنواز شریف اور آصف علی زرداری کو ملنے والے ریلیف کا پس منظر مختلف ہے ۔ میاں نواز شریف کو شدید علالت کے باعث برطانیہ جانے کی اجازت تو ملی لیکن وہ عمران خان کی شرائط پر باہر نہیں گئے بلکہ50روپے کے اشٹام پر تحریر کردہ یقین دہانی پر برطانیہ جانے میں کامیاب ہو گئے میاں نواز شریف جس طرح چھاتی پر مونگ دل کر باہر چلے گئے ہیں تاحال عمران خان اس پر تلملا رہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمنٰ بھی میاں نواز شریف کی علالت کی نوعیت سے پوری طرح آگاہ ہیں میاں صاحب ایجویرروڈ کے لبانی ہوٹل کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے لندن نہیں گئے بلکہ وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں اگر سب کچھ کسی’’ڈیل‘‘ کا نتیجہ ہوتاتو آج حکومت مریم نواز کی برطانیہ جانے کی راہ میں حائل نہ ہو جاتی۔ آصف علی زرداری بھی شدید علیل ہیں وہ صاحب فراش ہیں اور عملاً سیاست سے الگ تھلگ ہو گئے ہیں ۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمنٰ ،نواز شریف ،شہباز شریف اور آسف علی زرداری کے درمیان تعلقات کار کا ایک بھرم قائم رہا مولانا فضل الرحمنٰ نے حکومت گرانے کے لئے چار آل پارٹیز کانفرنسیں منعقد کر ڈالیں لیکن ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہونے کے باوجود اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے اپنے اپنے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھ کر کئے جانے فیصلوں نے ان کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ’’فاصلے‘‘ پیدا کر دئیے سروسز ایکٹس ترمیمی بلوں کی حمایت کے ایشو پر پوری اپوزیشن منقسم ہو کر رہ گئی مسلم لیگ (ن) نے بلوں کی’’ زیر زبر ‘‘تک تبدیل کئے بغیر ان کی من و عن شکل میں منظوری میں کلیدی کر دار ادا کیا وہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے بھی کوئی چوائس نہ چھوڑا اس نے بھی بلوں کی حمایت کرنے میں عافیت سمجھی ۔ اگر مولانا فضل الرحمنٰ ، میر حاصل بزنجو اور محمود خان اچکزئی کی جماعتوں نے سروسز ایکٹس کی حمایت نہیں کی تو مخالفت میں بھی ووٹ نہیںڈالا بلکہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے مخالفانہ نعرے لگانے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے واک آئوٹ کر دیا اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو ووٹ ڈالنے کا ’’گناہ‘‘ سرزد ہونے سے بچالیا انہوں نے obstain رہ کر وہی کام کیا جو اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بلوں کی حمایت کر کے کیا ۔ مولانا فضل الرحمنٰ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے طرز سیاست سے اس حد تک نالاں ہوگئے ان کو رہبر کمیٹی کے اجلاس میں ہی نہیںبلایا اور اپوزیشن کا6جماعتی اتحاد بنا لیا جس کے تحت حکومت گرانے کے لئے اسلام آباد پر یلغار کرنے کی از سر نو تیاریاں شروع کر دیں تاہم اس دوران مولانا فضل الرحمنٰ نے اپوزیشن کی تین جماعتوں کوغلطی کا احساس ہونے پر پھر سے گلے لگانے کا عندیہ دے دیا اگلے ہی روز میاں شہباز شریف نے سردار ایاز صادق کو مولانا فضل الرحمنٰ سے ملاقات کے لئے بھجوا دیا انہوں نے میاں شہباز شریف کا ’’ہتھ ہولا ‘‘ رکھنے کا پیغام پہنچا دیا جب کہ بلاول بھٹو زرداری کی ہدایتپر راجہ پرویز اشرف پہلے ہی مولانا فضل الرحمن کو راضی کرنے کے لئے ملاقات کر چکے تھے مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے مولانا فضل الرحمنٰ سے رابطہ کے بعد برف پگھل گئی ہے مولانا فضل الرحمن ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں وہ اپوزیشن جماعتوں سے ناراضی کا اظہار تو کر سکتے ہیں لیکن اپنی اصل سیاسی قوت کو منقسم کر کے عمران خان کی قوت میںاضافہ نہیںکرنا چاہتے عمران خان نے صحافیوںسے بات چیت میں اشارتاً اپوزیشن کے منقسم ہونے پر پھبتی کسی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کو ایک بار پھر متحد کر کے عمران خان کو سرپرائز دینا چاہتے ہیں۔ اگرچہ مولانا فضل ا لرحمنٰ مارچ 2020 ء سیاسی افق پر تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ اتحادیوں کو منانے کے بعد ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کا فوری خطرہ ٹل گیا ہے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے 9کمزوریاں دور کرنے کے لئے چار ماہ کی’’ مہلت‘‘ ، امریکہ طالبان کے درمیان 29فروری2020ء کو ہونے والا ’’ امن معاہدہ ‘‘ اور امریکہ کی ’’مہربانیاں ‘‘ سیاسی افق پر تبدیلی موخر کرنے کا باعث بن گئے ہیں ۔ عالمی صورت حال نے عمران خان کی خود اعتمادی میں اضافہ تو کر دیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمنٰ مشکل حالات میں اپنے سیاسی مخالفین سے جہاں بھرپور انداز میں لڑنے کی صلاحیت ہے وہاں وہ اپوزیشن جماعتوں کو اپنے گرد جمع کرنے کا فن جانتے ہیں ۔اگر اس وقت اپوزیشن کی کچھ جماعتیں مصلحتوں کا شکارہیں تو مولانا فضل الرحمنٰ کی کوئی مجبوری ان کے آڑے آ رہی لہذا وہ ایک اچھے ’’ سیاسی جنگجو‘‘ کے طور لڑائی کرنے کی شہرت رکھتے ہیں لہذا وہ ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھاء ی کا ماحول بنا رہے ہیں شیخ رشید احمد نے مولانا فضل الرحمنٰ کو دھرنے کے لئے نکلنے پر دھر لئے جانے دھمکی دی ہے لیکن وہ مولانا فضل الرحمنٰ کی ’’سٹریٹ پاور‘‘ سے بھی بخوبی واقف ہیں مولانا فضل الرحمنٰ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو موبلائز کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سب کچھ ’’خس و خاشاک‘‘ کی طرح بہہ جائے گا لہذا ’’کپتان ‘‘ کو سیاسی قوتوں کے ساتھ سیاسی انداز میںڈائیلاگ کا راستہ اختیار کر کے اپنے لئے سیاسی خطرات کو ٹالنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا چاہیے مولانا فضل الرحمنٰ پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں وہ اچھا سیاسی کھیل کھیلنے کے ساتھ ساتھ اپنے مخالف کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔