بیرسٹر محمد علی جناح بھی شادی کیلئے تیار ہوگئے اور تی کے والد سے باقاعدہ رشتے کی درخواست کر دی مگر سر ڈنشا ہنٹ نے صاف الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا مسٹر جناح آپکی اور رتی کی عمر میں خاصا فرق ہے دوسرے دونوں الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ رتی کی شادی کسی پارسی نوجوان سے ہو سکتی ہے پارسی تو صرف پیدائشی ہی پارسی ہوتا ہے لہذا مسٹر جناح آپ ایسا مت سوچئے ۔ قائداعظم نے ساری صورت حال رتی کو سمجھائی ۔ اول تو شادی کی عمر اٹھارہ سال ہونا قانونی طور پر ضروری ہے دوسرے شادی کرنے کیلئے رتی کا مسلمان ہونا اس سے زیادہ اہم ہے کیونکہ رتی تعلیم یافتہ اور صاحب فہم خاتون تھی لہذا اس نے دین اسلام کے بارے میں مطالعے کا فیصلہ کیا ۔ قرآن و احادیث مبارکہ اور اسلام کے نظام عدل کا بڑے محو اور انہماک سے دو سال کے عرصہ تک مطالعہ جائزہ کرتی رہیں جس سے ان پر واضح ہوگیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ دو سال بڑے صبراور تحمل سے گزار دیے اس عرصے کے دوران محبت کی شدت میں کمی نہیں آئی ۔ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتے ہی رتن بائی نے قانونی طور پر بالغ اور خودمختار ہونے عدالتی سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا اب بڑی جرات مندی اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے 18اپریل 1918ء بمبئی کی مشہور جامع مسجد میں جاکر اسلام قبول کرلیا ۔ آپ نے اپنا نام رتن بائی سے بدل کر اس کی جگہ مریم پسند کیا اب شادی میں کوئی عذر باقی نہ رہا لہذا 19اپریل 1918ء کو خالص اسلامی اصول رسوم اور عقائد کے مطابق شادی ہوئی ۔ بمبئی کے علاقہ ڈونگری میں پالا گلی کی ایک مسجد میں نکاح پڑھایا گیا ۔شادی کے بعد محمد علی جناح اور محترمہ مریم جناح بمبئی کے مائونٹ پلیزنٹ روڈ پر واقع قائداعظم کے نہایت وسیع و عریض پرشکوہ بنگلہ سائوتھ کوٹ پہنچے ۔ سائوتھ کوٹ 1912ء میں قائداعظم نے محترمہ مریم جناح کے والد کے مشور ے سے خریدا تھا مریم جناح محمد علی جناح کے نکاح نامے میں حق مہر کی رقم ایک لاکھ روپے رائج الوقت درج ہے ۔ اس طرح قائداعظم نے اپنی دلہن کو منہ دکھائی کی رسم میں سوالاکھ روپے نقد ادا کیا جو شاید اس وقت کا ریکارڈ ہو ۔ جہاں شادی پر محمد علی جناح بہت مسرور نظر آرہے تھے کہ ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں محسوس ہو رہی تھیں تو دوسری طرف ان کے اہل خانہ آپ کے اس فیصلے سے مطمئن اور مسرور نظر آئے کیونکہ تمام فیملی کی یہ خواہش تھی کہ محمد علی اپنا گھر بسالیں خاص طور پر آپ کی بہنیں فاطمہ جناح ، شیریں بائی اپنے بھائی کو مطمئن دیکھ کر پھولی نہ سمارہی تھیں کیونکہ یہ فیصلہ پورے خاندان کے لئے خوشیوں اور امیدوں کا پیامبر تھا ۔
قارئین کرام !قائد اعظم اور علامہ اقبال کے درمیان تعلقات محبت اور اعتمادکے حدود سے بڑھ کر یقین کی منازل طے کر چکے تھے ۔ حضرت علامہ قائداعظم کو مسلمانان ہند کا واحد نجات دہندہ تصور کرتے تھے بلاشبہ کوئی بھی دوسرا ان کا ثانی نہ تھا ۔16جنوری 1938ء پنڈت نہرو پنجاب کے سوشلسٹ سرمایہ کار میاں افتخار الدین کے ہمراہ حضرت علامہ کی مزاج پرسی کے بہانے آپ کے گھر حاضر ہوئے ۔ دوران گفتگو میاں صاحب نے علامہ محترم نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ مسلمانان ہند کی رہنمائی کا فریضہ خود ادا کیوں نہیں کرتے ۔مسلمان محمد علی جناح سے زیادہ آپ کی عزت و تکریم کرتے ہیں اگر مسلمانوں کی جانب سے آپ کانگریس سے بات کریں تو بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔ علامہ علالت کے باعث بستر میں دراز تھے یکدم غصے کی حالت میں اٹھے اور فرمایا کہ میں تمہاری چال کو اچھی طرح بھانپ سکتا ہوں مجھ کو جناح کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتے ہو سنو محمد علی جناح جس نشاط ثانیہ کی جنگ لڑ رہا ہے اس میں وہی مسلمانوں کا سالار ہے اور میں اس کا ایک سپاہی ہوں ۔
قارئین کرام !مقام اقبال تصور میں لائیے انسانی رہنمائی کے تمام اصول اور قواعد پر ہر زاویے سے پورے اترتے ہیں پھر جس شخص کو آپ لیڈر تسلیم کرکے خود کو سپاہی کہیں یقینا وہ شخص قائداعظم کے لقب کا مستحق ہے ۔محمد علی جناح وہ شخصیت تھے جنہوں نے آگے چل کر مولانا ظفر علی خان ، شوکت علی ، حسرت موہانی ، نواب بہادر یار جنگ ، بیگم محمد علی جوہر اور اس پائے کے بیشمار جلیل القدر شخصیات کی قیادت کا شرف حاصل کرنا تھا اس شخص کے لئے اپنی شریک حیات کا انتخاب معمولی بات نہ تھی ۔آپ اپنے عہد کے نامور بیرسٹر مقبول سیاست دان کے ساتھ اعلیٰ ذوق کی شخصیت مانے جاتے تھے ۔(جاری)