پاکستان میں تھانہ کلچر اور عوام پر اُس کے اثرات کے حوالے سے صورتحال کوئی زیادہ خوشگوار نہیں رہی۔ عوام کو ہمیشہ پولیس سے یہ شکایت رہی ہے کہ پولیس کا فوکس عوام پر مبنی سروس ڈیلیوری نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں طاقت اور اختیارات کا جائز و ناجائز استعمال اور عام آدمی کی عزت نفس مجروح کرنا رہا۔ شہریوں اور پولیس کے درمیان فاصلے کم اور روایتی مائنڈ سیٹ کو تبدیل کر کے ہی اس مقصد کا حصول ممکن ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے دور حکومت میں محکمہ پولیس میں اصلاحات اور جدید ٹیکنالوجی روشناس کروانے کی طرف خاص طور پر توجہ دی گئی ہے۔پولیس میں 12 ہزار سے زائد نئی بھرتیوں کا آغاز کیا گیا ہے۔پٹرولنگ سسٹم بہتر بنانے کیلئے پنجاب بھر کے تھانوں کو 600 سے زائد گاڑیاں فراہم کی گئیں ہیں۔45 تھانوں کی بلڈنگز کیلئے فنڈز بھی فراہم کئے گئے ہیں۔101 تھانوں کیلئے لینڈ ٹرانسفر کی جا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار چاہتے ہیں کہ عوام کو نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔پولیس سٹیشن میں شہریوں کو خوشگوار ماحول میسر آئے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی پولیس سے توقعات ہیں کہ وہ بہترین پیشہ وارانہ انداز میں شہریوں کوخدمات فراہم کرے۔پنجاب حکومت نے پنجاب پولیس کو ماضی کی کسی بھی حکومت سے بڑھ کر بھرپور وسائل اور سپورٹ فراہم کی ہے۔حکومت نے جنوبی پنجاب میں بھی ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں پولیس کا نیا اور مکمل سیٹ اَپ بنایا۔موجودہ آئی جی پنجاب انعام غنی کو اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ریفارمز ایجنڈا وژن کے تحت پنجاب پولیس میں"عوام دوست پولیسنگ" کا نظریہ اور ترجیحات بھر پور انداز میں متعارف کروائی ہیں اور وہ اس اپروچ کو نچلی سطح تک نافذ کرنا چاہتے ہیں۔انعام غنی تھانوں کو عوام دوست مراکز میں بدلنا چاہتے ہیں۔عوام دوست (Citizen Centric) پولیسنگ کا نظریہ پولیس کی ورکنگ کے حوالے سے ایک مکمل (paradigm shift) تبدیلی کا عمل ہے کیونکہ پولیس میں اس سے قبل ہمیشہ کرائم اور کریمینلز کی ہی بات کی جاتی رہی ہے،برآمدگیوں اور گرفتاریوں پر ہی بحث ہوتی رہی ہے کبھی عوام کی بات نہیں کی گئی۔عوامی شرکت، حمایت، اعتماد اورسپورٹ حاصل کئے بغیر پولیس کرائم کنٹرول اور امن و امان کے قیام میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ گذشتہ دنوں آئی جی پنجاب انعام غنی کے زیر اہتمام USIB کے اشتراک سے تین روزہ"نیشل کانفرنس برائے عوام پر مرکوز پولیسنگ" میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے ماہرین، دانشوروں،معروف اینکرز، سینئر حاضر سروس و ریٹائرڈ پولیس افسران، سیاسی و سماجی قائدین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور عوام دوست پولیسنگ کے تصور کو عملی شکل دینے کیلئے سیر حاصل تجاویز اور شفارشات پیش کیں کہ کس طرح پولیس کا فوکس عوام دوست پولیسنگ پر شفٹ کیا جا سکتا ہے کیونکہ پولیس کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر عام آدمی ہے جسے بہترین سروس معیار اور خوش اخلاقی کے رویوں کے ذریعے مطمئن کرنا پولیسنگ کی بنیادی اکائی ہے۔ اس بات پر غور کیا گیا کہ کس طرح پولیس کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ایک فورس سے ایک سروس میں بدلا جا سکتا ہے۔کانفرنس میں پیش کردہ سفارشات کے تحت اگلے دو سال کیلئے عوام کو مرکزیت دیتے ہوئے فرینڈلی پولیس پر مبنی ایک ایسا روڈ میپ بنا کر اس پر عمل کیا جائیگا جس میں صنفی تحفظ، رول آف لائ، فری رجسٹریشن آف ایف آئی آرز کو فوقیت حاصل ہوجس میں روایتی کی بجائے سائنٹیفک انوسٹی گیشن پر فوکس ہو ، تشدد کی حوصلہ شکنی اور مذمت کی جائے۔ایک ایسا روڈ میپ جس میں شہریوں کی بہتری اور ان کیلئے سہولیات و خدمات کی فراہمی اولین ترجیح ہو تاکہ پولیس اور شہریوں کے درمیان اعتماد اور دوستی کے رشتوں کو قائم کیا جا سکے۔ شہریوں کو جدید پولیس ایپس پر مبنی سائنٹیفک آئی ٹی بیسڈ سہولیات کی فراہمی سے یہ رشتہ مزید مضبوط ہو گا۔جرائم کے سدباب کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے ساتھ پولیس کا برتائو بہتر ہو گا اور یہ احساس پیدا ہو گا کہ پولیس شہریوں کی مدد اور خدمت کیلئے ہے۔پولیس ہماری اپنی ہے،پولیس کے دکھ سکھ اور شب و روز کے مسائل بھی ہمارے جیسے ہیں ۔ پولیس کارکردگی میں مثبت تبدیلی اور معاشرے کی اصلاح کیلئے شہریوں کو آگے بڑھ کے پولیس کا ساتھ دینا اور محض تنقید برائے تنقید کی بجائے پولیس کے حوالے سے منفی سوچ اور نظریہ بدلنا ہو گا۔امید ہے کہ عوام دوست پولیسنگ کے اس خوبصورت ارتقائی عمل کے دوررس اثرات جلد ہمارے سامنے آنا شروع ہو جائیں گے اور پولیس اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا مضبوط رشتہ استوار ہو گا۔