غصے میں لال پیلا جذباتی زور سے دروازہ کھول کر ایک دم سے میرے کمرے میں داخل ہوا او رمیری طرف دیکھ کر شدید ناراضگی سے کہنے لگا’’ مجھے تم ایسے چھوٹے پن کی ہرگز امید نہیں تھی‘‘۔ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑ ہوا ایک دن پرانا اخبار میری طرف اچھالتے ہوئے کہا ’’اس گھٹیا پن کی بات کررہا ہوں جو تم نے اپنے کالم بلکہ گالم میں کل کے اخبار میں میرے خلاف چھاپا ہے‘‘۔میں نے کہا ’’میرا کالم ہے لیکن اس میں تمہارے خلاف کہاں لکھا ہے ‘‘۔ جذباتی کے منہ سے اپنے لئے منافق جیسابیہودہ لفظ سن کر مجھے تھوڑابُرا تو لگالیکن اس موقع پرمیں اسے اس کی بیوقوفی سمجھ کر اپنا غصہ پی گیا اور جگ سے پانی کا ایک گلاس بھر کر اسے دیتے ہوئے کہا’’پہلے بیٹھ کر یہ پانی کا گلاس پیو اور پھر آرام سے مجھے بتائو کونسی منافقت کی ہے میں نے تمہارے ساتھ‘‘۔ اس پر وہ ایک بار پھر ہتھے سے اکھڑ کر کہنے لگا’’ میرا تمہارا اتنا پرانا تعلق ہے تمہیں مجھ سے جو بھی گلہ،شکوہ یا شکایت ہے اسے اس طرح گندے طریقے سے اشاروں کنائیوں میں اخبار میں لکھنے کی تمہاری کیا تک تھی۔ میںنے اس سے پوچھا’’تم نے یہ کالم خود پڑھا ہے ‘‘۔ وہ کہنے لگا’’ میں نے خود نہیں پڑھا لیکن تم نے جو کچھ لکھا ہے اور اس کا جو مطلب نکلتا ہے مجھے شاطر بھائی نے سب کچھ بتادیا ہے‘‘ ۔ میں نے پوچھا’’کیا کہا ہے اس چار سو بیس فسادی نے‘‘۔کہنے لگا’’اس نے کچھ نہیں کہا جو کہا ہے تم نے کہا ہے کیونکہ جو لکھا ہے تم نے لکھا ہے اس نے کچھ نہیں لکھا‘‘۔اس پر میں نے زچ ہوکر اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ’’ ۔اوے بھائی !مجھے معاف کردو شاطر کے بچے نے تمہیں بلاوجہ میں میرے خلاف بھڑکایا ہے ۔میں نے تمہارے خلااف اس کالم میں کچھ نہیں لکھا ہے میں نے تو اپنی طرف سے معاشرے کے ان بے حس جانوروں اور ناسوروں کے حوالے سے ایک علامتی کالم لکھنے کی کوشش کی ہے جنھوں نے اپنی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ہمارے ملک کے پورے نظام کو بڑی بے رحمی سے اپنے ظالمانہ شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال ہمارے ہاں وہ جاگیردار اور طاقتور طبقہ ہے جو برسوں سے بے شمار محکوم، مجبور اور کمزور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے مفادات پر قربان کررہا ہے اوران کے ظلم اور جبر کا شکار یہ کمزور طبقہ اس قدر بے بس ،مجبور اور لاچارہے کہ نسل در نسل ان کے ظلم و ستم برداشت کر رہا ہے لیکن ان سے چھٹکارہ نہیں پا سکتا‘‘۔اس پر اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا’’ اور یہ جو تم نے اپنے کالم میں لڑنے ،بھونکنے اور شکار کرنے والے کتوں بلکہ کتوںکمینوں کے بارے میں لکھا ہے اب کہہ دو یہ بھی ان جاگیرداروں کی طرف اشارہ ہے‘۔ اسکے اس سوال پر مجھے شاطر کی ساری بدمعاشی سمجھ آگئی جس نے بھولے بھالے جذباتی کو حسب روایت ایک بار پھر بیوقوف بنا کر پوری طرح میرے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی تھی میں شاطر کی شرارت سمجھ کرتھوڑامسکرایا اور پیار سے جذباتی کا ہاتھ پکڑ کر اسے کہا ’’ میرے بھولے بھالے،معصوم اور جذباتی دوست مجھے اس بات پر حیرانی ہورہی ہے کہ تم اچھے خاصے سمجھدار ہو اس کے باوجود تم ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر شاطر کے ہاتھوں بیوقوف بن گئے ہو،تم خود سوچو تم نے مجھے کیا نقصان پہنچایا ہے اور میں تمہارے لئے اپنے دل میں کوئی کینہ،حسد یا کدورت کیوں پالوں گا۔ مجھے تم سے اگر کوئی شکایت ہوتی تو میں اسے تمہارے منہ پر نہ کہتا اور یہ جو میں نے اپنے کالم میںکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے تو دراصل انکے ذریعے میں نے اُن خبیثوں اورغداروں کو لعن طعن کرنے کی کوشش کی ہے جو ہیں تو ہم میں سے ہی لیکن اپنے چھوٹے چھوٹے مفاد ات کے لئے اپنوں سے بیوفائی اور غداری کر کے ظالموں اور غاصبوں کے ’’کتے‘‘ بن کر اپنوں پر بھونکتے اور انہیں کاٹتے ہیں ۔