تُو شاہیں ہے بسیراکر پہاڑوں کی چٹانوں پر

Feb 24, 2021

واقعی اقبال جلدی نہیں دیر سے آتا ہے اور اقبالیات بھی آسانی سے نہیں آتی بس آتے آتے آتی ہے‘ کیونکہ اقبال و اقبالیات نام ہے ایک گہرے سمندر کا جس کی کوئی سرحد ہوتی ہے نہ حدیا پھر یوں کہہ لیں کہ اقبال اور اقبالیات نام ہے کسی منصب و مقام ومنزل کا اور منزلیں بآسانی ملتی کب ہیں۔  عظیم فلسفی ‘ مفکر و شاعر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری کی ایک مختصر جھلک دیکھیں
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا 
ہم پاسباں ہیں اس کے وہ پاسباں ہمارا 
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے 
نیل کے ساحل سے تاب خاکِ کاشغر 
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے 
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے 
کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں 
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 
قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی‘ سید نذیر نیازی‘  جناب حمید نظامی‘جسٹس جاوید اقبال‘ حسن اختر راجہ‘  محترم مجید نظامی اور بھی بڑے بڑے بلند قامت بزرگ گزرے ہیں اقبال کے شیدائی اور ماہرین اقبالیات۔ ڈاکٹر صفدر محمود‘ سلطان ظہور اختر‘ پروفیسر فتح محمد ملک‘ جسٹس  ناصرہ جاوید‘ ہارون رشید و دیگر نامی گرامی اقبالی جانتے ہیں کہ اقبال کیا تھے اور اقبالیات کسے کہتے ہیں۔ اقبالؒ ایسے مردِ حق کو میں کیا جانوں جس نے قلم پکڑنا اور قلم چلانا سیکھا ہی ان سوشلسٹ سرخوں سے ہے جو نام لیوا ہیں نطشے (مجذوب فرنگی) کے اور ناقد ین اقبال ہیں۔ ’’موسیٰؑ سے مُرسی تک‘‘ میری کتاب سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ ’’ سال‘ دہائیاں‘ صدیاں اور پھر کئی صدیاں بیت گئیں‘ اندرونی و بیرونی سازشوں نے سلطنت اسلامیہ کو کمزور کر دیا۔ ترقی کی بجائے رخ تنزلی کی جانب مُڑ گیا‘ پہیہ اُلٹا چلنے لگا‘ سیدھے کی جگہ اُلٹے اور دائیں کی جگہ بائیں نے لے لی۔ شیطانی طاقتوں نے اُلٹے اور بائیں کو مضبوطی اور عروج دے ڈالا‘ مسلم بھی وہ پہلے والے مسلم نہ رہے۔ ملاحظہ فرمائیے مردِ قلندر اقبالؒ کے اشعار:۔
وضع میں تم نصاریٰ ہو تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود 
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نااُمیدی 
بھلا بتا تو سہی اور کافری کیا ہے 
رہ گئی رسمِ اذاں روح بلالی نہ رہی 
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی 
اللہ کی زمین پر بیٹھ کر اللہ سے مقابلے شروع ہو گئے ۔ ڈارون‘ مارکس‘ ہیگل‘ کانٹ‘ ہائیڈگر‘ لینن‘ سٹالین‘ فیور باخ اور بھی کئی نام ہیں آج بھی ان کے فکری رشتہ دار‘ پیروکار و پرستار موجود ہیں۔ عالم کفر میں الحاد‘ لادینیت و دہریت پروان چڑھنے لگی الغرض لوگ اللہ کا بھی انکار کرنے لگے اور خدا کا قانون قرآن اسلام سب بھلا دیا۔ جرمن فلسفی نیٹشے (Nietsche ) نے ایک ایسی برتر نسل کا تصور پیش کیا تھا جو ساری انسانیت کی قیادت کی اہل ہو۔ نیٹشے ہی تھا جس نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ ’’خدا مر چکا ہے‘  اب انسان آزاد ہے‘‘( توبہ نعوذ بااللہ) جب علامہ اقبال بسلسلہ پی ایچ ڈی  کیلئے جرمنی گئے تو اس عہد میں جرمن سرزمین پہ نیٹشے کے افکار کی بڑی دھوم مچی تھی تب اقبالؒ نے نیٹشے کے اس احمقانہ اعلان کے جواب میں فرمایا :۔
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں 
اسے اقبال سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے 
مصورِ پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے حوالے سے میری اپنی ہی ایک نظم کا شعر ہے کہ:۔
جو کھینچی اقبال نے اپنے خوابوں کی تصویر 
پاکستان بنا قائد نے پوری کی تعبیر 
ہندو پاک میں قائد و اقبال سے بڑا لیڈر کوئی نہیں اور اقبال کا فلسفہ و لٹریچر انھیں قائد سے بھی بڑا کر دیتا ہے۔ قائد اگر قائد اعظم ہیں تو اقبال بھی صرف مفکر نہیں بلکہ شاعر مشرق ہیں او مفکر عظیم بھی۔ قائد و اقبال سے بڑا مسلم لیگی کون ہو سکتا ہے اور سوچنا یہ ہے کہ آج ہم کیسے کیسے لیگیوں کے وارثوں کو گلے لگائے اور رہنما مانے بیٹھے ہیں‘ جو زیرو ہیں ہم انھیں ہیرو بنانے چلے ہیں‘ اسے کہتے ہیں موروثی سیاست اور اگر ہم نے اپنے اصلی اور سربلند مشاہیر اور اپنے کسی قومی ہیرو کے وارث کو ہی رہنما ماننا ہے تو حضرت علامہ اقبالؒ کے پوتے سینیٹر ولید اقبال سے بہتر کوئی نہیں۔ میں کسی پارٹی گروپ  کی نہیں بلکہ حقیقی مسلم لیگ اور اصلی مسلم لیگیوں کی بات کررہا ہوں۔ کوئی مریم و مونس و بلاول بلکہ بنتِ بے نظیر بھی فرزندِ اقبال کے ولید کے لیول کا کوئی بھی نہیں۔ جتنے بھی پی ٹی آئی کے پردھان ہیں اور ترجمان ہیں سارے اچھے ہیں لیکن ولید اقبال جیسا کوئی نہیں جو بات کرتے ہیں تو پھول کھلتے ہیں او ر باتوں سے خوشبو آتی ہے
جن کی باتوں میں ہے پائل کی جھنک ڈھونڈ اُنھیں 
اب تو ہر سمت سے لفظ آتے ہیں پتھر کی طرح 
سینیٹر ولید اقبال ہمیشہ تحمل و تدبر واستدلال کے ساتھ گفتگو فرماتے ہیں۔ عام طور پہ پی ٹی آئی والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بد زبان ہیں انھیں بات کرنے کا کوئی سلیقہ اور تمیز ہی نہیں ہے لیکن سینیٹر ولید اقبال بڑے ہی معزز و مہذب ہیں اور باتمیز و با اخلاق بھی بلکہ باوقار و باکردار بھی۔ وزیرِ اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ ولید اقبال کی قدر فرمائیں
تُو شاہیں ہے بسیراکر پہاڑوں کی چٹانوں پر
 سینیٹر ولید اقبال کے پاس پی ٹی آئی کی صدارت ‘ سینیٹ میں لیڈر آف دی ہائوس یا کوئی بڑی وزارت ہونی چاہیے۔ آخر میں ایک بار پھر اقبالؒ کے الفاظ میں بخدمت کپتان بصد تکریم و احترام عرض ہے۔
لباسِ خضر میں ہزاروں راہزن بھی پھرتے ہیں 
اگر جینے کی تمنا ہے تو کچھ پہچان پیدا کر

مزیدخبریں