عمومی تاثر یہی ہوتا ہے کہ ضمنی الیکشن اس کا‘ جس کی حکومت۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کی جمہوری ریاستوں میں ضمنی انتخابات کے نتائج انیس‘ بیس کے فرق کے ساتھ حکومتی ’’امنگوں‘‘اور ’’سکہ رائج الوقت‘‘ کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ ضمنی انتخابات حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کی سیاسی بقاء کا مسئلہ ہوتے ہیں۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ ’’دیگ چوں دانہ ای چکھی دا اے۔‘‘ اس کے مصداق ضمنی انتخابات حکومتی کارکردگی‘ کارگزاری پر عوام کے بھرپور اعتماد یا عدم اعتماد کا اظہار ہوتے ہیں۔ اس لئے ضمنی انتخابات جیتنے کیلئے حکومت اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی خم ٹھونک کر میدان میں اترتی ہیں کیونکہ انہیں عوامی پذیرائی اور مقبولیت کو جانچنا ہوتا ہے۔ جیت یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل انتخابی سرگرمیوں میں جھونک دیئے جاتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے حلقوں میں شامل شہروں‘ قصبوں‘ دیہات کے نصیب جاگ اٹھتے ہیں۔ جن کچی راہوں پر چلتے ہوئے گدھا ریڑھیاں‘ بیل گاڑیاں ناک بھوں چڑھاتی ہیں‘ ان پر ہوٹر‘ سکوٹر والی گاڑیاں دھول پھانکتی‘ گردوغبار اڑاتی بڑے ناز و نخرے سے دندناتی پھرتی ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے قافلے بھی اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کیلئے دن رات ایک کیے رکھتے ہیں۔ حکومتی عہدیدار اور اپوزیشن رہنما اپنی راتوں کی نیند اور دن کا چین ضمنی الیکشن پر قربان کر دیتے ہیں۔ کئی دن تک رونق رہتی ہے ، بازار خوب سجتا ہے، ضمنی انتخابات کے حلقوں میں ہر وقت میلے کا سماں ہوتا ہے ، مہینوں پرانی تعزیتیں اور مبارکبادیں یاد آجاتی ہیں۔ ’’جوڑ توڑ‘‘ کی سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ جیت کا بھوت اس قدر سوار ہوتا ہے کہ اپوزیشن تو کیا‘ حکومتی عہدیدار بھی انتخابی ضابطۂ اخلاق کی پروا نہیں کرتے۔ سرکاری مشینری کو بھی حکومت اپنی معاونت کیلئے بھرپور استعمال کرتی ہے، اس دوران الیکشن کمشن کو کبھی ’’جھرجھری‘‘ آجائے تو حکومتی اور سرکاری عہدیداروں کو نوٹس بھیجنے تک ہی اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے چونکہ تمام حکومتی اور سرکاری عہدیدار اپنے ’’حلف وفاداری‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اس لئے وہ الیکشن کمشن کے کسی ’’نوٹس‘‘ کا برا مناتے ہیں نہ اس کی کچھ پروا کرتے ہیں۔ بلکہ وہ ’’نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیاں‘‘ کہتے ہوئے اس کو ’’چٹکیوں‘‘ اور قہقہوں میں اڑا دیتے ہیں۔ ضمنی انتخابات چونکہ ملک بھر کے اِکّا دُکّا حلقوں میں ہی ہوتے ہیں اس لئے حکومت‘ اپوزیشن جماعتوں اور متعلقہ حلقوں کے ووٹرز کی دلچسپی غیرمعمولی ہوتی ہے۔ ملک بھر کے عوام کی نظریں بھی ضمنی انتخابات پر لگی ہوتی ہیں جیسے ڈسکہ‘ وزیرآباد‘ خیبر پختونخوا‘ کرم کے حلقوں کے ضمنی انتخابات پرہوا۔ مسلم لیگ (ن) نے نوشہرہ (کے پی 63) اور وزیرآباد (پی پی 51) کی دو سیٹیں جیت لیں جبکہ کرم میں قومی اسمبلی (این اے 45) کی سیٹ پر تحریک انصاف کامیاب ہوئی۔ این اے 75 ڈسکہ کا الیکشن خونی ثابت ہوا جو دو قیمتی جانیں بھی نگل گیا‘ لیکن پھر بھی ’’بے نتیجہ‘‘ رہا‘ ڈسکہ کے حلقہ سے 19 پولنگ سٹیشنوں کا عملہ تھیلوں سمیت غائب رہا۔ کوششوں کے باوجود الیکشن کمشن کا ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ‘ ڈی پی او‘ آئی جی پنجاب اور دیگر سرکاری عہدیداروں سے رابطہ نہ ہو سکا۔ رات گئے چیف سیکرٹری پنجاب سے رابطہ ہوا تو انہوں نے عملہ بازیاب کرانے کا وعدہ کیا‘ لیکن پھر ان سے بھی رابطہ نہ ہو سکا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔ الیکشن کمشن نے ڈسکہ الیکشن کا نتیجہ روکتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیدیا۔ دیکھتے ہیں ’’بیل کب منڈھے چڑھتی ہے‘‘ دونوں پارٹیاں (تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن) اپنی اپنی کامیابی کے دعوے ضرور کر رہی ہیں۔ دونوں پارٹیوں کی قیادت اور حکومتی عہدیدار ڈسکہ میں اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کررہے ہیں۔ دو ، تین روز قبل ’’افتتاحی جشن‘‘ منایا۔ جاں بحق ہونے والے دونوں کارکنوں کیلئے ’’تعزیتی جلسے‘‘ بھی کئے۔ جس میں لواحقین کے ساتھ تعزیت کم تھی جبکہ اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کے دعوئوں کو’’سچ‘‘ کر دکھانے کیلئے قہقہے زیادہ تھے۔ دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے ’’اپنے‘‘ ’’اپنے‘‘ کارکن کے قتل کے الزامات ایک دوسرے پر لگائے جس کا مقصد دونوں خاندانوں کے ساتھ اظہارہمدردی کرنا نہیں تھا بلکہ ان دونوں لاشوں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا تھا کیونکہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی تھی۔ دیکھا نہیں‘ خیبر پی کے میں گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھا دی۔ عمران خان کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کا بھائی لیاقت خٹک (ن) لیگ کے امیدوار کے ’’جشن فتح‘‘ میں شریک تھا۔ اس پر اگرچہ اس کو صوبائی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے‘ لیکن کوئی بات نہیں۔ وزارت دفاع تو گھر میں ہی ہے نا۔ اب ’’مقتولین ڈسکہ‘‘ کے لواحقین اپنے بیٹوں کا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں گے۔
کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل‘ نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخی لب خنجر‘ نہ رنگ نوک سناں
نہ خاک پر کوئی دھبہ‘ نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے‘ کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمت شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانۂ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی عَلم پر رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا ہے، بے آسرا یتیم لہو
کس کو بہر سماعت‘ نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا‘ رزق خاک ہوا
ضمنی انتخابات… اور خون خاک نشیناں
Feb 24, 2021