تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔۔۔ !! 

ہم پاکستانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کی قدر اس وقت آتی ہے جب وہ ہماری زندگیوں سے اتنے دور جا چکے ہوتے ہیں کسی ایسے جہاںمیںجدھر کوئی الفاظ کی بازگشت سنائی دیتی ہے ، نہ لفظوں کا مرہم کام آتا ہے ۔ ستائش کے بول ، پھولوں کی خوشنما چادریں جانے والے کے مدفن کو تو سجا سکتے ہیں لیکن اس کی بے رنگ زندگی ، جدوجہد کی داستان اس کے مرنے کے بعد ہی امر ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں تو آپ کو اپنی قدر کروانے کے لئے آپ کا مرنا ضروری ہے کیونکہ کڑوا سچ یہی ہے کہ اگر اس ملک میں آپ کو ہیرو بننا ہے تو اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ آپ کو اپنی موت کا انتظار کرنا ہو گا ۔ یہی پہاڑوں کے بیٹے علی سد پارہ کے ساتھ بھی ہوا ، جب تک زندہ رہے لوگوں کو ان کی محنت اور جدو جہد کا کبھی احساس نہ ہوا اور جب پہاڑوں نے اپنی آغوش میں اس طرح چھپا لیا کہ دنیا سے ہی منہ موڑ گئے تو ان کی قدر آئی ۔ اناتولی بوکریف نے ایک دفعہ کہا تھا کہ پہاڑوں میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ ہمیں اپنی راجدھانی میں کھینچ لائیں ، جہاں ہمارے وہ دوست ابد تک کے لئے ہوتے ہیں، جن کی روحیں کبھی ان بلندیوں تک جانے کے لئے مچلا کرتی تھیں ۔ ان کوہ پیمائوں کو مت بھلانا ،جو چوٹیوں سے لوٹ کر نہیں آتے ۔ 
 اسکردو شہر سے تعلق رکھنے والے محمد علی سد پارہ 2فروری 1976 کو پیدا ہوئے ، انہوں نے آٹھ ہزار چار سو پچاسی میٹر بلند چوٹی ماکالو کو 24 مئی کو سر کیا جو دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی ہے ۔ اس چوٹی کو سر کرنے کے بعد وہ پہلے پاکستانی کوہ پیما بن گئے تھے جس نے آٹھ ہزار میٹرمیں چودہ سے اونچی سات چوٹیوں کو سر کر لیا تھا اور کہیں ریکارڈ کے مطابق آٹھ چوٹیوں کا سر کر لیا تھا ۔ سردی کے موسم میں بغیر اکسیجن نانگا پربت کو سر کرنا ایک انوکھا ریکارڈ تھا اور اس ریکارڈ بنانے والے یہی علی سد پارہ کو کوئی سرپرستی حاصل نہ تھی ۔ ان کا تعلق ست پارہ گائوں سے تھا جو بعد میں سد پارہ ہوگیا 
یہ بلتستان کا وہ علاقہ ہے جہاں کے باشندے اپنی غربت دور کرنے اور حصول روزگار کے لئے پورٹر بن کر غیر ملکی کوہ پیمائوں کا بھاری بھر کم سامان اٹھا کر بلند و بالا پہاڑ وں پر چڑھتے ہیں۔ محمد علی سد پارہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی کی جدو جہد کی داستان بھی اسی طرح ایک ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹر بن کر شروع ہوئی ۔اس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایک ایسا وقت تھا کہ اپنی بیوی کی سلائی مشین خریدنا کسی پہاڑ کو سر کرنے سے زیادہ مشکل تھا ۔ ان کو یہاں انتہائی عام سپانسرز ملنا بھی بہت مشکل تھے ا نہیں پاکستان میں اتنے لوگ نہیں جانتے تھے جتنے غیر ملکی ان کی وجہ سے پاکستان کو جانتے تھے ۔ یہ وہی محمد علی تھا جو سبز ہلالی پرچم ہمیشہ اپنی جیب میں رکھا کرتا تھا ۔ 
 محمد علی سد پارہ اپنے بیٹے ساجد علی سدپارہ اور دو غیر ملکی کوہ پیما ساتھی جن میں آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جے پی موہر کے ساتھ کے ٹو کو سردیوں میں سرکرنے کا خواب لے کے جنوری کے مہینے کے آخر میں شدید سردی میں پہاڑوں کے سفر پر روانہ ہوئے کیمپ تھری کی جانب عازم سفر تھے جہاں اس وقت کے ٹو پہ درجہ حرارت منفی ساٹھ اور ستر ڈگری تھا برفیلی ہوائیں چلنے کے سبب اس مشن کو ختم کر کے واپس لوٹ آئے محمد علی اور ان کے بیٹے ساجد علی اکسیجن کے بغیر اس مہم جو ئی میں حصہ لے رہے تھے ۔ 3 فروری کو کے ٹو سمٹ دو با رہ شروع ہوا اور کوشش یہ تھی کہ پانچ فروری کو کے ٹو کو سر کر کے فتح کا پرچم لہرایا جائے ۔ پانچ فروری کوجب وہ کے ٹو سر کرنے کی حتمی کوشش میں مصروف تھے اور آٹھ ہزار میٹرکی بلندی پر پہنچ چکے تھے کہ ان کا کیمپ تھری اور بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا ۔ محمد علی کے بیٹے ساجد علی سد پارہ کو طبیعت ناسازی کی وجہ سے ان کے والد نے واپس بھیج دیا تھا وہ کیمپ تھری پہ پہنچ کے اپنے والد کی طرف سے کے ٹو سر کرنے کے اعلان کا منتظر تھا کہ ونٹر سمٹ ٹیم کے لاپتہ ہونے کی خبریں گردش کرنے لگیں ۔ یوں پہلے چوبیس پھر آڑتالیس گھنٹے بھی گزر گئے لیکن کوئی خبر نہ آئی ۔ محمد علی جیسا سخت جان انسان کہتا تھا کہ اگر کبھی میں پہاڑوں میں کہیں کھو جائوں تو بھی کچھ دن برف میں گھر بنا کے زندہ رہ سکتا ہوں اتنی جلدی ہمت نہیں ہار سکتا اسکے حوصلے کے ٹو سے بھی زیادہ بلند تھے اس لئے ان کے قریبی لوگ جانتے تھے کہ وہ اتنی جلدی ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں یہی وجہ تھی کہ امید کے چراغ روشن تھے پھر ساری قوم بھی دعائوں اور نیک خواہشات کے ساتھ کسی معجزے کا انتظار کرنے لگی جب کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہ آئی تو حکومتی سطح پر ان کوہ پیمائوں کی تلاش کا آپریشن شروع ہوا جو ہفتے سے بھی زیادہ جاری رہا اور جانے والے لوٹ کے نہ آسکے اور نہ ہی ان کا کوئی سراغ ملا ۔ پہاڑوں کے بیٹے بڑا خواب لئے ہمیشہ کے لئے پہاڑوں میں گم ہوگئے اور کچھ دن قبل ان کے بیٹے ساجد سد پارہ اور حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے ان کی موت کی تصدیق کر دی گئی اور یوں علی سدپارہ کا خواب ادھورا رہ گیا لیکن وہ خود مر کے دنیا میں امر ہو گئے ۔ 
 دنیا کا عجیب اصول ہے کہ زندوں کو کوئی پوچھتا نہیں اور مرنے کے بعدجانے والے کی قدر آتی ہے ۔ مہم جو ، کوہ پیما محمد علی سد پارہ سچے محب وطن پاکستانی تھے انہوں نے ملک کا نام روشن کرنے کے لئے مہم جوئی کے دوران اپنی جان وار دی جس پہ پوری قوم اس سانحے پہ سوگورا ہونے کے ساتھ ساتھ محمد علی کی خدمات کی معترف بھی ہے، ہمیں ان پہ فخر ہے ۔ موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں ایسی موت نصیب ہوتی ہے کہ دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ اللہ تعالی علی سد پارہ کی مغفرت فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم لوگوں کی زندہ ہوتے ہوئے قدر کر سکیں ۔ 

ای پیپر دی نیشن