الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ کے الیکشن کا شیڈول جار ی کر دیا ہے جس کے مطابق سینیٹ کا الیکشن 3 مارچ، 2021 ، کو ہوگا۔ سینیٹ کا الیکشن لڑنے کی خواہاں جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا باضابطہ اعلان کر دیا ہوا ہے اور انکے نامزد کردہ امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی سینیٹ کے الیکشن کیلئے جمع کروا دیے ہیں ۔ 3مارچ، 2021 کو ہونے والا سینیٹ کا الیکشن اپنی نوعیت کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان تحریکِ انصاف کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ ہے جبکہ قومی اسمبلی میں اکثریت کی حامل ہے۔ دوسری طرف سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اکثریت حاصل ہے مگر 3مارچ، 2021 کو منعقد ہ الیکشن میں پارٹی پوزیشنز میں واضح تبدیلی کا امکان ہے۔ سینیٹ میں کل اراکین کی تعداد 104 ہوتی تھی او ر فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد کل اراکین کی تعداد 100رہ گئی ہے جبکہ مدتِ نامزدگی 6سال تک ہوتی ہے لیکن نصف تعداد یعنی کہ 50%اراکین (اپنی 6سالہ مدت) پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوجاتے ہیں اور انکی جگہ نئے اراکین کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ 25جولائی 2018 کو قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جس کے نتیجہ میں نئی منتخب مرکزی قومی وصوبائی حکومتیں تشکیل پائیں لہذا اب منتخب قومی و صوبائی اراکین اپنے اپنے صوبہ سے سینیٹ کے اراکین کا انتخاب کرینگے۔صوبہ پنجاب سے 11 ، صوبہ سندھ سے 11 ، صوبہ بلوچستان سے 12 ، صوبہ خیبر پختون خواہ سے12 ، جبکہ دارالحکومت اسلام آباد سے 2سینیٹرزکا انتخاب کیا جائیگا۔صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ سے بالترتیب11، 11 سیٹوں پر فی صوبہ 7جنرل، 2، ٹیکنوکریٹس، اور 2 خواتین کا انتخاب کیا جائیگا۔ جبکہ صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ سے بالترتیب12، 12 سیٹوں پر فی صوبہ 7 جنرل،2 ٹیکنوکریٹس، اور 2 خواتین اور 1اقلیتی نشست پر انتخاب کیا جائے گا۔ سینٹ میں ہر صوبہ کی 23نشستیں ہوتی ہیں جبکہ دارلحکومت اسلام آباد کی 4 نشستیں ہوتی ہیں ۔ 8نشستیں اسلام آباد کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی ہوتی تھیں مگر اس علاقہ کا صوبہ خیبر پختونخواہ میں انضمام کے بعد 4نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا۔
موجودہ سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 29سینیٹرز ہیں جن میں سے 17ریٹائرہو جائینگے جبکہ 3مارچ 2021 کو منعقدہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) 5نشستیں جیت سکے گی اس طرح مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز کی تعداد 17ہو جائیگی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 21 ہے جبکہ 8ریٹائر ہوجائیں گے اور 8سینیٹرز منتخب ہونے کے روشن امکانات ہیں اسطرح سے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 19ہوجائیگی۔ پاکستان تحریک ِ انصاف کے سینیٹرز کی تعداد 14ہے جبکہ 7ریٹائر ہوجائینگے متوقع طور پر 21نئے سینئٹرز منتخب ہوجائینگے اسطرح سے تعداد28 سینیٹرز کے منتخب ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف سینیٹ میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئیگی ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 10ہے جبکہ 3سینیٹرز ریٹائر ہوجائینگے اور 6نئے سینیٹرز منتخب ہونے کی توقع کی جارہی ہے اسطرح سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 13ہوجائیگی ۔ جمیعت علماء اسلام (ف) کے سینیٹرز کی تعداد 4ہے جبکہ 2ریٹائر ہوجائینگے اور 3نئے منتخب ہونے کی توقع کی جارہی ہے اس طرح سے تعداد 5سینیٹرز ہوجائے گی ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے موجودہ سینیٹرز کی تعداد 5ہے جبکہ ان میں سے 4ریٹائر ہوجائیں گے اور 2سینیٹرز کے منتخب ہونے کی توقع ہے لہذا انکی تعداد 3ہوجائے گی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ موجودہ سینیٹر1 اور متوقع منتخب 2 لہٰذا متوقع تعداد2ہو جائے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی موجودہ سینیٹر 1 ، ریٹائر 1 جبکہ متوقع سینیٹر2 ہوجائینگے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس1، کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہورہا جبکہ 1سینیٹر منتخب ہونے کی توقع ہے، لہذا متوقع 2سینیٹرز، نیشنل پارٹی کے موجودہ 4سینیٹرز میں سے 2ریٹائر ہوجائینگے اور کوئی نیا سینیٹر منتخب نہیں ہوسکے گا۔ اسطرح سے انکی تعداد 2سینیٹر رہ جائے گی۔ جماعت اسلامی کے موجودہ 2سینیٹرز ہیں ایک سینیٹر ریٹائر ہوجائیگا اور تعداد 1سینیٹر رہ جائیگی۔ اسطرح سے آزاد 8سینیٹرز میں سے 4ریٹائر ہوجائیں گے اور تعداد 4رہ جائیگی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے 3مارچ 2021کی منعقدہ سینیٹ کے الیکشن میں 21 سینیٹ کی نشستیں جیت کر کل 28سینیٹرز کے ساتھ اکثریتی جماعت کے طور پر ابھرنے کے امکانات ہیںجبکہ تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت بلوجستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 13ہوجانے کے امکانات ہیں اس طرح سے دونوں جماعتوں کے سینیٹرز کی تعداد 41ہوجانے کی توقع ہے ۔حکمراں اتحاد کے سینیٹرز کی توتعداد ایم کیو ایم 3سینیٹرز، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 2سینیٹرز، آزاد 4سینیٹرز کے اضافہ سے ، کل100 اراکین کے ایوان میں حکمران اتحاد کی تعداد 50یا اس سے زائد ہوجانے کی توقع ہے ۔ صوبہ پنجاب کی 11 نشستوں میں سے 5تحریکِ انصاف ، 5مسلم لیگ (ن) جبکہ ایک نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ق) باآسانی کامیاب ہوجائیں گی۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کی 12نشستوں میں سے تحریک انصاف کے بآسانی 10نشستیں حاصل کرنے کی توقع ہے جبکہ ایک نشست جمیعت علماء اسلام (ف) اور ایک نشست عوامی نیشنل پارٹی کو ملنے کی قوی توقع ہے جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتیں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کرتی نظر آ رہی ہیں ۔ صوبہ سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی بآسانی 6نشستوں پر کامیاب ہوسکتی ہے جبکہ ایک ایم کیو ایم پاکستان تحریکِ انصاف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی مؤثر حکمت عملی کی بدولت پاکستان پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کے5 نشستوں پر کامیاب ہونے کے امکانات ہیں۔
سینیٹ کا الیکشن انتہائی اہم خیال کیا جاتا ہے کیونکہ قانون سازی کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ کا کلیدی کردار ہوتا ہے ۔ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف مؤثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سینیٹ میں اسکی اقلیت ہونا ہے جبکہ اب اکثریتی پارٹی منتخب ہونے کے بعد اس کے پاس بل کو دونوں ایوانوں میں پاس کروا کر کے ان پر عمل درآمد کروانے کے کافی امکانات ہوں جائینگے۔ دوسری طرف صدارتی ریفرینس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں سپریم کورٹ نے طے کرنا ہے کہ الیکشن رولز 2017 کے تحت ہوں گے یا نہیں ۔ جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ عوامی نمائندوں پر عوام کو بھرپور اعتماد ہو اور عوامی نمائندے عوام کی امنگوں کے مطابق قانون سازی کریں تاکہ بنیادی عوامی مسائل حل ہوسکیں جو کہ مؤثر قانون سازی سے ہی ممکن ہے۔ نو منتخب سینیٹرز سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مؤثر قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرینگے اور عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرینگے۔